عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/سیکورٹی ایجنسیوں نے پہلگام حملے میں ملوث تین غیر ملکی دہشت گردوں کی پاکستانی شہریت کی تصدیق کے لیے اہم شواہد اکٹھے کیے ہیں، جن میں پاکستان حکومت کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات اور بائیومیٹرک ڈیٹا شامل ہیں۔
ان دہشت گردوں کی شناخت لشکرِ طیبہ (LeT) کے سینئر کمانڈروں کے طور پر ہوئی ہے، جنہیں 28 جولائی کو سری نگر کے نواحی علاقے میں داچھی گام کے جنگلات میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران ہلاک کیا گیا۔ یہ کارروائی ’مہادیو آپریشن‘کے تحت انجام دی گئی۔
حکام کے مطابق، شواہد سے واضح ہوا ہے کہ ان دہشت گردوں میں کوئی کشمیری شامل نہیں تھا۔پاکستانی نادرا (NADRA) کا بائیومیٹرک ریکارڈ، ووٹر شناختی پرچیاں، سیٹلائٹ فون ڈیٹا، لاگز اور جی پی ایس پوائنٹس وہ ناقابل تردید شواہد ہیں جن سے ان کی پاکستانی شہریت کی تصدیق ہوئی ہے۔مزید تفتیش، بشمول بالسٹک تجزیہ اور دو گرفتار معاونین کے بیانات، دہشت گردوں کے پہلگام حملے میں ملوث ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔
ایک سینئر افسر نے کہا’’یہ پہلا موقع ہے جب ہمارے پاس پاکستانی حکومت کی جاری کردہ ایسی دستاویزات موجود ہیں جو پہلگام حملہ آوروں کی شہریت کو مکمل طور پر ثابت کرتی ہیں۔‘‘’آپریشن مہادیو‘ کے دوران اور اس کے بعد حاصل کیے گئے فرانزک، دستاویزی اور بیانی شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تینوں حملہ آور پاکستانی شہری اور لشکرِ طیبہ کے سینئر کمانڈر تھے، جو حملے کے دن سے داچھی گام -ہارون جنگلاتی علاقے میں چھپے ہوئے تھے۔ ان میں کوئی کشمیری مقامی شامل نہیں تھا۔
قابل ذکر ہے ہے ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی شناخت سلیمان شاہ عرف ’فیصل جٹ A++ درجے کا دہشت گرداورحملے کا ماسٹر مائنڈ ،ابو حمزہ عرف ’افغان‘ A گریڈ کمانڈر ،یاسر عرف ’جبرانA گریڈ کمانڈر کے بطور کی گئی ہے۔
سیکورٹی فورسز کو ان کے قبضے سے پاکستان کے سرکاری دستاویزات بھی ملے، جن میں انتخابی کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ دو لمینیٹڈ ووٹر پرچیاں شامل ہیں، جو شاہ اور حمزہ کی جیبوں سے برآمد ہوئیں۔ یہ پرچیاں بالترتیب لاہور (NA-125) اور گوجرانوالہ (NA-79) کے ووٹرز سے مطابقت رکھتی ہیں۔
ایک سیٹلائٹ فون سے حاصل شدہ مائیکرو ایس ڈی کارڈ میں تینوں دہشت گردوں کا نادرا بائیومیٹرک ڈیٹا، فنگر پرنٹس، چہرے کی شناخت، اور خاندانی شجرہ شامل تھا۔ ان کے پتوں کی شناخت چھانگامانگا (ضلع قصور) اور کوئیاں گاؤں، راولا کوٹ کے طور پر کی گئی۔
فرانزک رپورٹ کے مطابق، پہلگام سے برآمد شدہ 7.62×39 ملی میٹر کی گولیوں کے خول جولائی 28 کو ضبط کردہ AK-103 رائفلز سے بالکل مماثل نکلے، جبکہ حملے کے مقام سے برآمد شدہ ایک پھٹی قمیض سے حاصل شدہ ڈی این اے تینوں لاشوں سے مکمل طور پر میل کھاتا ہے۔تینوں دہشت گردوں نے مئی 2022 میں لائن آف کنٹرول (LoC) کو شمالی کشمیر کے گریز سیکٹر سے عبور کیا، اور ان کی ابتدائی ریڈیو موجودگی پاکستانی حدود سے پکڑی گئی۔
دو مقامی معاونین، پرویز اور بشیر احمد جوٹھار نے بیان دیا کہ دہشت گرد حملے سے ایک رات قبل بائیسرن کے قریب ہل پارک میں ایک عارضی شیڈ میں ٹھہرے اور انہیں پکا ہوا کھانا فراہم کیا گیا۔سلیمان شاہ کے جی پی ایس ڈیوائس سے حاصل شدہ راستے عینی شاہدین کے بیانات سے مکمل طور پر میل کھاتے ہیں۔
ڈیجیٹل ثبوت کے طور پر، ان کے زیر استعمال ہواوے سیٹلائٹ فون (IMEI 86761204-XXXXXX) نے 22 اپریل سے 25 جولائی تک ہر رات Inmarsat-4 F1 کو سگنل بھیجے، جن کی بنیاد پر تلاش کا دائرہ ہارون کے 4 مربع کلومیٹر کے جنگل میں محدود کیا گیا۔
پہلے جاری کیے گئے مشتبہ افراد ہاشم موسیٰ، علی بھائی عرف ’طلحہ‘، اور مقامی عادل حسین ٹھوکر کی اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی گئی ہے۔ وہ تصاویر دراصل دسمبر 2024 کے ایک علیحدہ واقعے سے ملی تھیں۔
پاکستانی مداخلت کے مزید ثبوت کے طور پر، حکام نے بتایا کہ لشکرِ طیبہ کے جنوبی کشمیر کے چیف، ساجد سیف اللہ جٹ (چھانگا مانگا، لاہور) کی آواز سیٹلائٹ فون سے حاصل کردہ گفتگو سے مماثلت رکھتی ہے۔جبکہ راولا کوٹ کے لشکر چیف رضوان انیس نے 29 جولائی کو ہلاک دہشت گردوں کے گھروں کا دورہ کیا اور غائبانہ نماز جنازہ‘ کروائی، جس کی ویڈیو اب بھارت کے سرکاری شواہد میں شامل ہے۔
پہلگام حملے میں ملوث دہشت گردوں کی پاکستانی شہریت کی تصدیق، شواہد اکٹھے
