عاصف بٹ
کشتواڑ // کشتواڑ ضلع میں ایک حاملہ خاتون ضلع ہسپتال سے صرف 800میٹر کے فاصلے پر بروقت طبی امداد نہ ملنے پر سڑک کے کنارے بچے کو جنم دینے پر مجبور ہوئی۔حاملہ خاتون بروقت طبی امداد نہ ملنے پر مقامی خواتین کی مدد سے سڑک کے کنارے بچے کو جنم دینے پر مجبور ہوئی۔قصبہ سے 40کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کیشوان کے دور افتادہ گاؤں کرنا کی رہنے والی یہ خاتون بچے کو جنم دینے کیلئے صبح سویرے نکلی تھی تاہم وہ کشتواڑ کے مصروف ترین بونہ آستان چوک کے قریب، جو ضلع ہسپتال سے صرف 800میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، زچگی میں چلی گئی۔بونہ آستان کے رہائشی محمد عرفان میر ،جس نے خاتون کو پریشانی میں دیکھا ،فوری طور پر مدد کے لیے پہنچ گئے۔انھوں نے بتایا کہ میں نے فوری طور پڑوسیوں کو بلایا ،ڈلیوری کے دوران اپنے وقار کو برقرار رکھنے میں مدد کرنے کے لیے محلے کی خواتین جلدی سے بیڈ شیٹس کے ساتھ پہنچیں۔ محکمہ صحت این جی اوز اور قریبی پولیس چوکی سے وابستہ کئی لوگوں سے رابطہ کرنے کے باوجود کسی نے جواب نہیں دیاجسکے بعدخاتون نے اپنے بچے کو وہیں سڑک کے کنارے ہی جنم دیا۔ ہنگامہ آرائی کی اطلاع پر ایڈووکیٹ سید فیصل ،جن کا گھر جگہ کے سامنے ہے، وہ بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔انہوں نے بتایا کہ یہ انتہائی مایوس کن واقعہ ہے کہ محکمہ صحت کا کوئی بھی شخص سامنے نہیں آیا،میں نے حکام کو کئی کالیں کیں، لیکن کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ ایک ایمبولینس کو پہنچنے میں تقریباً 30منٹ لگے جو بغیر کسی طبی عملے یا مناسب اسٹریچر کے وہاں پہنچی ،اسکی حالت ناقابل استعمال تھی۔ فیصل نے بتایا کہ خاتون اور اس کے نومولود نے تقریباً 45 منٹ تک جدوجہد کی، اس سے پہلے کہ ریٹائرڈ میڈیکل ورکر فاروق احمد آہنگر ،جو وہاں سے گزر رہے تھے، نے مداخلت کی۔ ان کی مدد سے بالآخر خاتون کو دوسری ایمبولینس میں ضلع ہسپتال منتقل کیا گیا۔ مقامی خاتون صحافی سپنا ٹھاکر نے بتایا کہ دو دن پہلے ہماری ایم ایل اے شگن پریہار و ڈی ڈی سی کی چیئرپرسن پوجا ٹھاکر ڈسٹرکٹ ہسپتال کے اندر لڑ رہے تھے،کاش وہ سیاسی فائدے کے بجائے بہتر سہولیات کے لیے لڑتے ۔ انہوں نے کہاکہ ایک ماں کے طور پرمیں اس درد اور بے بسی کو سمجھ سکتی ہوں جو عورت نے محسوس کی ہوگی۔انھوں نے کہا کہ چناب خطہ سے اس طرح کے معاملات باقاعدگی سے رپورٹ ہوتے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے مضبوط سیاسی عزم کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ڈیلیوری میں مدد کرنے والی ایک اور خاتون نے کہا کہ صحت کی دیکھ بھال کے بارے میں حکومت کے لمبے چوڑے دعوے جھوٹے ہیں۔انہوں نے ماں اور بچے کی صحت کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا کشتواڑ جیسی جگہوں پر لوگوں کو اس طرح زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جیسے وہ قدیم زمانے میں زندگی بسرکررہے ہو ں۔ریٹائرڈ ہیلتھ ورکر فاروق احمد آہنگر نے بتایا کہ ماں اور بچہ دونوں کی حالت مستحکم ہے،تاخیر کے باوجود، اسے ہسپتال پہنچانے سے صرف پانچ منٹ کی دیری ہوئی ۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ کوئی بھی آشا ورکرخاتون کے ساتھ جانے کے لیے موجود نہیں تھی جیسا کہ ان کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ انھیں ہسپتال تک پہنچائیں۔ بعد میں اس خاتون کی شناخت بیا بیگم زوجہ بشیر احمد کے طور پر ہوئی جو کیشوان کے کرنا سے ہے۔ ڈسٹرکٹ ہسپتال کشتواڑ کے عہدیداروں نے میڈیا کو بتایا کہ اس طرح کے معاملات متعلقہ بلاک میڈیکل آفیسر کی ذمہ داری میں آتے ہیں اور یہ کہ ہسپتال کی ڈیوٹی مریض کے داخل ہونے کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بی ایم اوز کے پاس مریضوں کی نقل و حمل کے لیے اپنی ایمبولینسیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہسپتال کی اپنی ایمبولینسیں لاکھوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکی ہیں اور انہیں فوری طور پر متبادل اور مرمت کی ضرورت ہے۔ معاملے کے بعد ڈی سی کشتواڑ نے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود میڈیکل آفیسر کو فوری طورمعطل کر دیا اور میڈیکل سپرانٹنڈنٹ سے وضاحت طلب کی جبکہ اے ڈی سی کشتواڑ اسے معاملے کی انکوائری کریں گے۔