پرویز مانوس
تمام عالم پر رات کی تاریکی چھا چکی تھی۔ اسپتال کے وارڈ میں سارے مریض دن بھر درد سے کراہنے کے بعد بے سُدھ ہوچکے تھے۔ وارڈ میں مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی، سفید دیواروں پر پھیلی ہوئی خاموشی میں ایک درد بھرا سکوت جھانک رہا تھا۔ رستم خان، جس کے کندھے وقت کے بوجھ سے جھکے ہوئے تھے، اپنی نوجوان بیٹی کے بیڈ کے پاس اداس کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کے بال پریشانی کے عالم میں بکھرے ہوئے ، گال پچکے ہوئے اور ہونٹ اس قدر سوکھ چکے تھے کہ اُن سے لہو پھوٹ رہا تھا۔ اُس کی آنکھیں رنج و الم سے اندر کی جانب دھنس چکی تھیں اور وہ مُسلسل اپنی بیٹی کے چہرے کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی، دل میں ایک ایسا کرب تھا جو اسے زندہ رہنے کی سزا کے طور پر محسوس ہو رہا تھا۔ اس کی بیٹی، جو کبھی اس کے دل کی ٹھنڈی چھاؤں تھی، آج اس بستر پر بے جان سی لیٹی ہوئی تھی، جیسے زندگی اس کے وجود سے روٹھ چکی ہو۔ دریں اثنا وہ اپنے ماضی کی کتاب کے اوراق اُلٹنے لگا _،،
رستم کی یادیں اُسے ماضی کے ان دنوں میں لے گئیں جب وہ جوان، مغرور اور طاقتور تھا۔ اسے ہمیشہ اپنی طاقت اور حیثیت پر ناز تھا کیونکہ وہ مقامی ایم ایل اے کا بیٹا تھا ۔ اس کی جوانی کا زمانہ تھا جب وہ اس دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے کا عزم رکھتا تھا ۔ اس کے دل میں وہی جنون تھا جو اسے دوسروں کی عزت نفس اور جذبات کی پرواہ کئے بغیر اپنے مفاد کی تکمیل پر مجبور کرتا تھا۔
دوران کالج ہی رستم نے ایک غریب، با حیا لڑکی سے محبت کا جھوٹا ناٹک کیا تھا۔ وہ لڑکی، جس کا نام نجمہ تھا، اپنی زندگی میں سادگی اور وقار کی مثال تھی۔ نجمہ نے ہمیشہ اپنی عزت اور خاندان کی عزت کا خیال رکھا تھا، لیکن رستم کے جھوٹے وعدوں نے اس کے دل میں امید کی شمع جلائی تھی اور وہ اُس کے جال میں معصوم پنچھی کی طرح پھنس گئی تھی۔
رستم کی نظر میں نجمہ ایک معمولی سی شے تھی، جسے وہ اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا تھا۔ لیکن نجمہ نے جب رستم کی اصلیت کو پہچانا اور اس کے جھوٹے وعدوں کو مسترد کیا اور شادی سے قبل جسمانی تعلق بنانے سے انکار کردیا تو رستم کا غرور ٹوٹا اور انا مجروح ہوگئی _ :
’’اُس معمولی سی لڑکی کی یہ مجال کہ رستم کو انکار کرے، رستم شراب کا گھونٹ حلق میں اُنڈیلتے ہوئے خود سے مخاطب ہوا۔۔۔۔سالی سمجھتی کیا ہے اپنے آپ کو، بڑا غرور ہے اُسے اپنی خوب صورتی پر، میں اُسے ایسا سبق سکھاؤں گا کہ وہ کسی کو مُنہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی‘‘۔ پھر بدلے کی آگ نے اُسے پاگل کردیا، ایک دن کالج سے گھر کی طرف جاتے ہوئے اُس نے نجمہ کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا ،،وہ سڑک پر تڑپنے لگی اُس کے ارد گرد لوگوں کی کافی بھیڑ تھی لیکن مدد کرنے کے بجائے وہ سارے اپنے اپنے موبائل سے اُس کے تڑپنے کی ویڈیو بنا رہے تھے، پھر کسی بھلے مانس نے پولیس کو فون کردیا اور پولیس نے اُسے اسپتال پہنچایا _اس حادثے نے نجمہ کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے جہنم بنادیا وہ خوبصورت چہرہ، جسے دیکھ کر ہر کوئی متاثر ہوتا تھا، اب بدنما ہو چکا تھا۔ نجمہ کا وہ چہرہ جس پر کبھی معصومیت کی روشنی تھی، اب درد اور اذیت کا نمونہ بن گیا تھا۔
نجمہ کا چہرہ، جو کبھی مسکراہٹوں کا مسکن تھا، اب خوف اور دکھ کی علامت بن چکا تھا۔ اس کی زندگی تباہ ہو چکی تھی، اُس کے والدین تڑپتے رہے لیکن رستم اثر رسوخ رکھنے والے باپ کا بیٹا تھا دولت کے بل بوتے پر عدالت سے باعزت بری ہوگیا۔ اُس روز وہ تینوں نجمہ اور اُس کے ماں ،باپ بارگاہ خداوندی میں زار و قطار روئے۔ اُس کے باپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی ،وہ آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ،
“اے میرے پروردگا ۔۔۔۔! کیا تُو نے ہم غریبوں کا وجُود اسی لئے بنایا ہے کہ امیر لوگ ہماری عزت کو روندھتے رہیں اور ہم خود پر ہور رہے جبر و استبداد کا تماشہ دیکھتے رہیں ۔
اُس کی ماں کہنے لگی ” اگر واقعی ہمارا بھی رب ہے تو میں اُس کے فیصلے کا انتظار کروں گی‘‘۔ ایک نجمہ ہی تھی جو اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی اپنے رب کے فیصلے پر راضی تھی۔ اس نے کبھی رستم سے بدلہ لینے کا نہیں سوچا تھا، بلکہ اپنی بربادی کو ایک آزمائش سمجھ کر قبول کیا تھا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے تھے کچھ کہتے امیر لڑکا دیکھ کر اُس کو لوٹ لوٹ کر کھاتی رہی اور جب اُس سے جی بھر گیا تو اُس سے پیچھا چھڑانے لگی تھی، دوسرا کہتا ۔” ارے اس کے باپ کو سب معلوم تھا، وہ تو بیٹی کی دلالی کھاتا تھا، اب ٹسوے بہانے لگا ہے، ایک طرف لوگوں کی جھڑکیاں تو دوسری طرف میڈیا والوں کے سوالات سے تنگ آکر آخر ایک دن وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو لے کر یہ شہر چھوڑ کر چلا گیا۔
وقت گزرتا گیا، نجمہ کی زندگی ایک دردناک کہانی بن کر رہ گئی۔ رستم نے سیاست میں قدم رکھا اور ایک مقامی پارٹی کا سربراہ بن گیا اور وہ اپنی زندگی کی رنگینیوں میں مصروف ہوگیا۔ ایک اونچے خاندان میں شادی کرکے وہ کافی خوش و خرم تھا۔ نجمہ کو بُھلا کر اس نے اپنی زندگی کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ _ رستم کی دو بیٹیاں ہانیہ اور ثانیہ تھیں جن میں ایک پولیو کا شکار تھی اور دوسری اچھی خاصی خوبصورت ،ماڈرن اور آزاد خیال تھی۔ اُس نے ثانیہ کو ہر طرح کی آزادی دے رکھی تھی ساتھ میں بہت اچھی پرورش کی۔ وہ اپنے ماضی کو بھلا چکا تھا، اب اُس کی بیٹی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہی تھی۔ ایک دن اُس نے بیٹی کو ایک لڑکے کے ساتھ دیکھا تو گھر آنے پر اُس نے بیٹی سے پوچھا “بیٹی تمہارے ساتھ وہ لڑکا کون تھا؟
ڈیڈی اُس کا نام عامر ہے میرے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے، وہ بہت اچھا لڑکا ہے، میں چاہتی ہوں آپ ایک بار اُس سے مل لیں پھر میری شادی کافیصلہ کریں _رستم کافی تجربہ کار آدمی تھا، _،،کچھ دیر سوچنے کے بعد رستم نے ہانیہ سے پوچھا”کہاں رہتا ہے؟ کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے ؟ ہانیہ نے سر جھکاتے ہوئے کہا، ’’اُس کی ماں ایک جانی مانی سوشل ورکر ہے۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ ہی رہتا ہے، _ ہانیہ نے اپنے موبائل میں عامر کی ماں کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا۔ تصویر دیکھتے ہی رستم کے ماتھے پر بل پڑ گئے، اُسے یہ صورت جانی پہچانی لگی۔ „ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں، پھر رستم نے لڑکے کا نام پتہ معلوم کرکے تحقیقات شروع کی، چند روز بعد اُس نے اپنی بیٹی کو اپنے پاس بلایا اور پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا” بیٹی ۔۔۔۔! اگر آج تک عامر کے ساتھ تیرا کوئی تعلق رہا ہے تو اُسے تاریک ماضی سمجھ کر بھول جا کیونکہ میں نے اُس کے خاندان کے بارے میں اچھی طرح چھان بین کرلی ہے، اُس کے باپ نے اُس کے پیدا ہونے سے قبل ہی اُس کی ماں کو یہ کہہ کر طلاق دیا ہے کہ وہ اُس کی اولاد نہیں ہے، دوسرا اُس کی ماں کے بارے میں کہتے ہیں کہ اُس کے تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے ہیں جنہیں وہ لڑکیاں…… باقی تم سمجھدار ہو، میں تمہارا باپ ہوں تمہارے لئے اچھا ہی سوچوں گا‘‘۔
ہانیہ چونکہ سمجھدار تھی، پہلے اُس نے اُس لڑکے کے ساتھ ملنا جلنا کم کیا پھر شادی سے انکار کرکے ملنا بالکل بند کردیا۔ لڑکا اُس کی جدائی میں ماہی بےآب کی طرح تڑپنے لگا، ثانیہ اُس کا فون بھی نہیں اُٹھاتی تھی، کچھ دن خاموشی سے گزر گئے تو ثانیہ کو لگا کہ وہ اُسے بھول گیا ہوگا لیکن دفعتاً ایک دن بیچ بازار میں اُس نے ثانیہ کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا _ ۔
آج جب رستم کی اپنی بیٹی اسی حالت میں بستر پر پڑی تھی، تو اسے احساس ہوا کہ وہی درد اور کرب جس کا سامنا نجمہ نے کیا تھا، آج اس کی بیٹی کو بھی سہنا پڑ رہا تھا۔ وہی تکلیف جو نجمہ کے دل میں تھی، آج اس کے اپنے دل میں تھی۔
اسپتال کی مدھم روشنیوں میں رستم خان نے اپنی بیٹی کے چہرے کو دیکھا، جو تیزاب کے حملے سے جلا ہوا تھا تو ٹڑپ اُٹھا،اس کی آنکھوں میں آنسو، دل میں پشیمانی اور زبان پر معافی کے الفاظ تھے، لیکن وہ جانتا تھا کہ اب معافی کا کوئی مطلب نہیں رہا۔ نجمہ کے ساتھ کی گئی زیادتی کا بدلہ قدرت نے اسے اسی طرح چکا دیا تھا۔
وہ بیڈ پر سرجھکائے انہی سوچوں میں غوطہ زن تھا کہ اُس کے کانوں سے ڈاکٹر کے یہ الفاظ ٹکرائے _،،
مسٹر رستم خان، آئی ایم ساری ۔۔۔۔ہم اس کی جراحی کرنے کی ذمہ داری نہیں لے سکتے کیونکہ تیزاب کی شدت سے اس کے چہرے کی ہڈیاں بھی پگھل گئیں ہیں۔ اُسے لگاکہ اُس کے کانوں میں جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہے۔
���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر ، کشمیر
موبائل نمبر؛9419463487