تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم 40کے قریب بچے کچے مکان میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور
محمد بشارت
کوٹرنکہ //ضلع راجوری کے تعلیمی زون خواص میں سرکاری تعلیمی نظام کی ابتر صورتحال روز بروز سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ درجنوں دیہی علاقوں میں قائم سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی شدید کمی اور عدم دلچسپی نے ہزاروں غریب بچوں کے تعلیمی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔حکومت کی جانب سے بارہا دعوے کئے گئے کہ دیہی علاقوں میں تعلیمی ڈھانچے کو مضبوط کیا جائے گا، مگر زمینی سطح پر حالات اس کے برعکس ہیں۔ خاص طور پر پنچایت حلقہ گونڈی کے وارڈ نمبر 5 میں واقع گورنمنٹ پرائمری اسکول پاٹیاں گائی کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔اس اسکول کی عمارت کی تعمیر کا کام سال 2015 میں شروع کیا گیا تھا، لیکن دس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود عمارت کا لینٹر تک مکمل نہ ہو سکا۔ اس وقت بھی تقریباً 40 طلباء ایک کچے کمرے میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں جہاں بارش، دھوپ اور سردی سے بچاؤ کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہے۔سماجی کارکن بھوشن کمار شرما نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اسکول کی عمارت کی چھت پر عارضی طور پر ٹین کی چادریں ڈال کر تعلیم جاری رکھی گئی، مگر برسات کے موسم میں دیواریں بوسیدہ ہو گئی ہیں اور اینٹیں گرنے لگی ہیں، جس سے بچوں کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہے۔انھوں نے مزید بتایا کہ اب بچوں کو قریبی شہری محمد شریف کے گھر منتقل کیا گیا ہے تاکہ ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہے، لیکن یہ بھی ایک عارضی حل ہے، مستقل نہیں۔جب اس معاملے پر زونل ایجوکیشن آفیسر سے بات کی گئی تو انہوں نے اعتراف کیا کہ اسکول کی عمارت کا کام صرف لینٹر کے نہ ہونے کی وجہ سے مکمل نہیں ہو سکا۔ ان کے مطابق زمین کے تنازعے کی وجہ سے دو مقامی گروپوں میں جھگڑا ہوا، جس سے عمارت کی تعمیر تعطل کا شکار ہو گئی تاہم، انہوں نے یہ بھی اطلاع دی کہ اب اس اسکول کے لئے نئی عمارت کی منظوری دی جا چکی ہے، اور جلد ہی تعمیراتی کام دوبارہ شروع ہو گا۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر متعلقہ محکمے نے وقت پر توجہ دی ہوتی تو بچوں کی تعلیم اس طرح متاثر نہ ہوتی۔ انہوں نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ دیہی علاقوں کے غریب بچے بھی بنیادی تعلیمی حق سے محروم نہ رہیں۔