کیف حسن زیدی
جموں//جموں شہر کی روایتوں سے جڑے بازار، اب محض سودا سلف کے مرکز نہیں رہے بلکہ جدید دور کی ٹیکنالوجی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے لگے ہیں۔ جہاں پہلے خریدار نقد رقم لے کر دکانوں پر جایا کرتے تھے، اب وہی خریدار اور دکاندار UPI،QRکوڈ اور موبائل ایپلی کیشنز کے ذریعے لین دین کر رہے ہیں۔جموںکے پٹیل بازار میں بیگ کی ایک دکان پر کام کرنے والے جاوید نے بتایاکہ اب تو گاہک پوچھتا ہے’بھائی QR ہے؟اگر نہیں ہو تو وہ اگلی دکان پر چلا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی وقت کے ساتھ بدلنا پڑا۔یہ صرف جاوید کی بات نہیں، بلکہ پورے جموں شہر کے بازاروں میں اب یہی حال ہے۔ سبزی فروش، گول گپے والے، کپڑوں کی دکانیں، جوتے چپل بیچنے والے، حتیٰ کہ چھوٹے فٹ پاتھ والے ریہڑی والے بھی اب QR کوڈ والے بورڈ لگائے بیٹھے ہیں۔ڈیجیٹل ادائیگی نے جہاں خریداروں کے لیے آسانی پیدا کی ہے، وہیں دکانداروں کے لیے بھی فائدے کی بات ہے۔ انہیں روزانہ کی حساب کتاب آسان ہو گئی ہے، اور چھوٹے کاروباری اب ’’آفیشل‘‘نظام کا حصہ بننے لگے ہیں۔ایک خاتون بوٹیک کی مالکن شاہین نے بتایاکہ اب تو آن لائن آرڈر بھی آتے ہیں، ہم QR کے ذریعے پیسے لیتے ہیں اور واٹس ایپ پر تصویریں بھیج کر کپڑے بیچتے ہیں۔ گھر بیٹھے کاروبار بھی چل رہا ہے اور عزت بھی مل رہی ہے۔پہلے صرف کیش چلتا تھا، اب Paytm, Google Pay, PhonePe سب کچھ ہے۔ جو کبھی صرف بڑے شاپنگ مالز میں ہوتا تھا، اب وہ ہماری چھوٹی دکانوں میں بھی ہے۔دوسری جانب ڈیجیٹل لین دین سے دھوکہ دہی کی گنجائش بھی کم ہو گئی ہے۔ گاہک اور دکاندار دونوں کے پاس ثبوت موجود ہوتا ہے۔ ساتھ ہی روزانہ کا حساب کتاب، GST بل اور رپورٹنگ جیسے سرکاری عمل بھی آسان ہو گئے ہیںاور جہاں سہولت ہے، وہیں کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ جیسے انٹرنیٹ کا نہ ہونا، ٹیکنالوجی کی سمجھ نہ ہونا، یا گاہکوں کا غیر سنجیدہ رویہ۔ لیکن اس کے باوجود جموں کے بازار مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔جموں کے بازاروں کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں کی ثقافت اور روایت آج بھی زندہ ہے۔ پرانی منڈی کی گلیوں سے گزرتے ہوئے جب کوئی دکاندار آپ کو QR کوڈ اسکین کرنے کے لیے کہتا ہے، تو وہ ایک واضح پیغام دیتا ہے’’ہم پرانے بھی ہیں، لیکن پیچھے نہیں‘‘۔جموں میں صرف بازار ہی نہیں بلکہ عام شہری خدمات جیسے آٹو رکشہ، اسپتالوں کے بل، میڈیکل اسٹورز اور یہاں تک کہ ریلوے اسٹیشن پر بھی UPI اور QR کوڈ کے ذریعے ادائیگی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ گجر نگر جموں سے تعلق رکھنے والے آٹو ڈرائیور تنویر نے بتایا:مسافر اکثر کہتے ہیں کیش نہیں ہے، UPI چلے گا؟ اب ہم نے Paytm اور PhonePe رکھ لیا ہے، جھگڑا ہی ختم ہو گیا۔جموں ریلوے اسٹیشن پر موجود چائے اور ناشتہ اسٹالز پر بھی QR کوڈ اسکین کرتے ہوئے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ سرکاری اور نجی اسپتالوں میں بھی اکثر لوگ OPD فیس، جانچ اور دوائیوں کی رقم موبائل سے ادا کرتے ہیں۔ یہ سب اس بات کی نشانی ہے کہ جموں شہر حقیقی معنوں میں ڈیجیٹل بھارت کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔جموں کے بازاروں میں ڈیجیٹل ادائیگی کا بڑھتا رجحان صرف ایک ٹیکنالوجی کی تبدیلی نہیں بلکہ سوچ کی تبدیلی بھی ہے، جہاں روایتی دکانداری اور جدیدیت ایک ساتھ چل رہے ہیں۔ خریدار اور دکاندار، دونوں نے وقت کے ساتھ بدلنا سیکھا ہے، جس سے نہ صرف کاروبار میں آسانی آئی ہے بلکہ اعتماد اور شفافیت بھی بڑھی ہے۔ یہ کہانی محض QR کوڈ کی نہیں بلکہ ایک نئے جموں کی ہے، جو روایتوں کے ساتھ ساتھ ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہے۔