میر ذاکر،کوکرناگ
کافکا کہتا ہے،’’ہمیں ایسی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے جو ہمیں بیدار کرے۔ جو کتاب آپ کے سر کو چکرا نہیں دیتی یا اپ کے اندر ایک تڑپ پیدا نہیں کرتی ،ایسی کتاب کا کوئی فائدہ نہیں‘‘خیر ! یہ ایک بڑے انسان کی بڑی بات ہوئی، چاہے آپ اس سے جزوی اتفاق کرے یا مکمل۔ لیکن آج جو کتاب میرے پیش نظر ہے، میں سمجھتا ہوں اس پر یہ بات من و عن صاد آتی ہے۔ یوں تو شاعری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی جذبات کی ترجمان ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دلوں کو موم اور آنکھوں کو نم کرتی ہے اور صاحب دل انسان اس کو اپنے اندر کی آواز سمجھ کر جھوم جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاعری کی یہ تعریف بھی اس کتاب پر فٹ بیٹھتی ہے۔ کم سے کم مقبوضات میں سانسیں گننے والے لوگوں کے لیے یہ کتاب دل کی روداد ہے۔ یعنی میں The Wreched of the Earth کی بات کر رہا ہوں۔ یہ کتاب قاری کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہے اور ظلم و جبر میں تڑپتی انسانیت، اس کے خلاف پروان چڑھنے والا حریت کا رد عمل، آزادی کے دامن سے وابستہ ممکنہ خطرات اور نوآبادیات سے پیدا ہونے والے دور رس سماجی اور نفسیاتی مسائل پر زمینی گفتگو کرتی ہے۔
فرانز فینن کو اکثر محدود زاویہ سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کسی نے اس کو تشدد کا پیامبر کہا تو کسی نے غیروں کا آلہ کار، جب کہ فینن کے ساتھ انصاف یہ ہے کہ اس کو خود اس کی نظر سے دیکھا جائے۔ ورنہ وہی صورتحال پیش آئے گی جو اندھیرے کمرے میں ہاتھی کو پہچاننے میں لوگوں کو پیش آئی۔ جس کا ہاتھ ٹانگ پر پڑا تو اس نے اسے ستون جیسا سمجھا تو کسی نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اسے ڈول سمجھا۔ فینن کا canvas بہت وسیع ہے، اس کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں، وہ ایک ماہر نفسیات بھی ہے جو نوآبادیات کے نفسیاتی اثرات کو گہرائی میں سمجھتے تھے اور وہ ایک وجودی مزاحمت کے پرچارک بھی ہے، یعنی ان لوگوں کا وکیل جو غلامی میں جی کر اپنی شناخت اور تحفظ کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ فینن کو اس لئے بھی پڑھنا بہت ضروری ہے کیوں کہ وہ ہمیں انگلی پکڑ کر اس دنیا کے مسائل سے روشناس کراتے ہیں۔اُن کے نزدیک یہ دنیا غیر مساوی اور بکھری ہوئی دنیا ہے جہاں طاقت کا وحشیانہ تازیانہ گردش میں ہے۔ طاقت کا اندھا کوڑا یہاں سرگرم ہے جو پسماندہ اور کمزور انسانوں سے انسانیت کا حق چھیننے میں سرگرمِ عمل ہے۔اس لئے فینن کو پڑھنا گویا خود کو، سماج کو اور دنیا میں جاری کشمکش کو سمجھنے کے مترادف ہے۔
زیر بحث کتاب کا دیباچہ مہشور فلسفی، سارتر نے لکھا ہے جو نہ صرف فینن کے نظریہ کی تائید کرتےہیں بلکہ ایک جارحانہ انداز میں یورپ کی بے لگام ملگ گیری کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک ظلم نہ صرف محکوم کو مفلوج کرتا ہے بلکہ حاکم پر بھی اپنے مہیب سایہ چھوڑتا ہے۔ وہ اپنے ہی تشدد میں اپنی انسانیت کھو بیٹھتا ہے۔ساتر کہتے ہیں کہ اس نظام کا مقصد صرف محکوم کو زیر کرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لئے تشدد کو ضروری تصور کر کے محکوم کی شناخت کو مسخ کرنا ہوتا ہے۔ ایسا عمل محکوم قوم میں شدید نفسیاتی ہیجان پیدا کرتا ہے جو شروعات میں آپس کے جھگڑوں میں رونما ہوتا ہے کیونکہ اول اول محکوم قوم نوآبادیات کا سامنا نہیں کر پاتی لیکن آخر کار یہ تشدد اپنے اصل ہدف یعنی نوآبادیات پر پلٹ کر وار کرتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ تشدد محکوم عوام کی خود کو تعمیر کرنے اور اپنی کھوئی ہوئی آزادی اور ذمہ داری واپس لینے کی کوشش ہوتی ہے۔ فینن یورپ کی انسان دوستی کے کھوکھلے دعوؤں کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ ان کی نظر میں یورپ خوشنما نعروں کے پیچھے لوٹ مار اور جبر و تشدد کو روا رکھنے والا علاقہ ہے۔ یورپ کی خوشحالی کے پیچھے تیسری دنیا سے کشید کیا گیا خون ہے، جس سے اس نے اپنے محلات کو رنگین کیا ہے۔فینن کے نزدیک نوآبادیات صرف زمیں چھیننے کا نام نہیں بلکہ یہ انسانیت اور انسانی قدروں کی تباہی ہے اور اس تباہی کو ختم کرنے کا عمل یعنی نوآبادیات کا خاتمہ کسی پُرامن چائے کہ پارٹی سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے لازمی طور پر تشدد ہی واحد راستہ ہے جو تشدد کو مٹا سکتا ہے۔ محکوم اپنی نفسیاتی صحت تب ہی بحال کر سکتا ہے جب وہ طاقت سے نوآبادکار سے نجات حاصل کرنے کے لئے کمر بستہ ہوں۔ نوآبادیات محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ اسے تاریخ کے ساتھ براہ راست ایک زندہ تصادم کے طور پر دیکھنا چاہئے۔
تشدد یعنی concerning violence فینن کی کتاب کا ایک اہم حصہ ہے۔ فینن کہتےہیں کہ نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ decolinization یا غلامی سے نجات کا خاتمہ ہمیشہ پُر تشدد رویے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ کیوں کہ باہر سے آکر حکومت کرنے والے خود ایک پُر تشدد طریقوں سے ہی مسلط ہوتے ہیں اور ان کی جڑوں کو واپس اکھاڑنا تشدد ہی سے ممکن ہوتا ہے۔ طاقت کو طاقت کے ذریعے ہی مات دی جاسکتی ہے۔ ان کے نزدیک نوآبادیاتی نظام شروع سے ہی دو مخالف دھڑوں میں بٹا ہوتا ہے۔ ایک طرف آبادکار یعنی organiser اور دوسری طرف مقامی باشندے یعنی organised۔ ان دونوں دھڑوں میں آپس کا رشتہ مفاہمت کا نہیں بلکہ ٹکراؤ اور مخاصمت کا ہوتا ہے اور یہ کوئی اتفاق نہیں کہ یہ اس نظام کا لازمی حصہ ہوتا ہے جو ہمیشہ ٹینکوں اور توپوں کے سہارے چلتا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتےہیں کہ تشدد کا عمل ہی مظلوم کے لئے ذہنی تبدیلی کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب صدیوں سے دبی ہوئی چنگاری آخر بھڑک اٹھتی ہے اور محکوم اپنی کھوئی ہوئی میراث کو حاصل کرنے کی خاطر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ویسے فینن تشدد کی تعریف نہیں کرتے نا ہی اسے رومانوی رنگ دیتے ہیں بلکہ وہ اسے ایک ضرورت کے طور پر ایک ایسے نظام کے خلاف پیش کرتے ہیں جس نے انسانیت اور انسانی قدروں کے خلاف سب دروازے بند کئے ہوتے ہیں۔ جب کسی آبادی یا گروہ کو غیر انسانی سطح تک دھکیل دیا جاتا ہے تو اس معاشرے میں ٹکراؤ کا رد عمل بنیادی عنصر بنتا ہے۔ یہ تصادم محکوم کے لئے زندگی و موت کا آخری مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ جنگ، اُس اَمن سے بے پناہ خوبصورت ہوتی ہے جس میں انسان کی عزت نفس گروی رکھی جاتی ہے۔
نوآبادیاتی نظام کی تصویر اس حوالے سے بھیانک ہوتی ہے کہ اس میں لوگ دو حصوں میں بانٹے جاتے ہیں، ایک طرف نوآبادیات کا خوشحال شہر اور دوسری طرف مقامی پسماندہ لوگ۔ اور یہ صرف امیر غریب کی تقسیم نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک نسلی تعصب پر استوار تقسیم ہوتی ہے۔ اس نظام کے لئے یہ از بس ضروری ہوتا ہے کہ وہ مقامی لوگوں کو جانوروں کی سطح پر لائے اور ان کی خودی، عزت نفس، اور قومی شناخت کو مسخ کرے۔ اس کے لئے ان کے اندر ایک احساس جرم، احساس کمتری اور برائی کی جڑ قرار دینا جیسے نفسیاتی امراض کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ کتاب کے اس حصے میں فینن کہتا ہے کہ جس قوم کو نسلوں تک کچلا جاتا ہے اس قوم کو پھر ان حالات سے نکل کر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے جان و مال کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ فینن آگے اس تشدد کا سرا شناخت سے، ثقافت سے، نفسیاتی بحالی سے اور ایک حقیقی طور پر آزاد معاشرے کی تعمیرِ نو کے پیچیدہ مسائل سے جوڑتا ہے۔اگلے باب میں فینن ایک اہم بات کہتا ہے کہ اکثر انقلابات کسی مربوط حکمت عملی سے وجود میں نہیں آتے بلکہ بے ساختہ جذبے سے شروع ہوتے ہیں ،جس کو فینن spontaneity کہتا ہے۔ جب مظلوم عوام صدیوں کے جبر کے بعد اچانک اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور ان کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہوتا بلکہ اپنا درد،اپنا غصہ اور آزادی کی فطری تڑپ ہوتی ہے اور یہ بے ساختگی یا spontaneity ناقابل یقین حد تک طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ کچے دھاگے کی طرح نازک بھی ہوتی ہے۔اس جذبے اور طاقت کو بے سمت لائحہ عمل، کمزور قیادت اور کچا سیاسی شعو الجھن و انتشار کا شکار کر کے طویل عرصے تک سبوتاژ کر سکتا ہے۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ مخالف قوتیں اس جذبے کو ان مقاصد کے لئے استعمال کرتےہیں، جن کا عوام کی آزادی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا بلکہ ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کے کھوکھلے نعروں کی دہلیز پر آکر دم توڑتا ہے۔ فینن سمجھاتے ہیں کہ آزادی کا سفر ایک فطری جبلت سے شروع ہو کر ایک منظم جدو جہد تک کیسے پہنچتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس عمل کے لئے صرف اتحاد کافی نہیں بلکہ ایک شعور بھی ضروری ہے ورنہ بہت سارے اتحاد اصل مسائل کو چھوڑ کر فروعات کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اگر تنظیم، ڈھانچہ اور شعور نہیں تو پھر انقلاب داخلی انتشار جیسا خطرہ مول لیتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ عوام کی ذہن سازی کر کے ان کو مضبوط تنظیم اور لائحہ عمل کی لڑی میں پرویا جائے۔ تاکہ اس صبر آزما عمل سے بہترین نتائج حاصل کئےجائیں۔(جاری)
[email protected]>