صوفیوں کی سرزمین پر ڈیجیٹل جوئے کی وباء | نوجوان نسل پُر فریب تباہ کُن کھیلوں میں مشغول

Towseef
9 Min Read

حال و احوال

مختار احمد قریشی

کشمیر، جسے صوفیوں کی سرزمین کہا جاتا ہے، ہمیشہ روحانیت، صداقت، ایمانداری اور سادگی کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں کے لوگوں نے قرونِ وسطیٰ سے لے کر آج تک روحانی اور اخلاقی اقدار کو سینے سے لگا کر زندگی بسر کی ہے۔ صوفی بزرگوں نے جو پیغام دیا، وہ انسانیت، قناعت، شکرگزاری اور سچائی پر مبنی تھا۔ تاہم جدید ٹیکنالوجی کی یلغار اور غیر اخلاقی آن لائن رجحانات نے اس پاکیزہ معاشرے پر بھی منفی اثرات ڈالنا شروع کر دیے ہیں۔ خاص طور پر ’’ڈیجیٹل جوئے‘‘ کی بڑھتی ہوئی لت نے نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ بڑی عمر کے افراد کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ پہلے جو وقت مسجدوں، علم و ادب یا دستکاری میں صرف ہوتا تھا، اب وہ وقت اسکرین پر انگلی پھیرتے ہوئے برباد کیا جا رہا ہے۔قابل افسوس امر یہ ہے کہ حلال روزی کمانے والے افراد بھی خواب دیکھتے ہیں کہ وہ چند کلک سے راتوں رات امیر ہو جائیں گے۔ اسی خواہش میں وہ اپنی محنت کی کمائی کو ڈیجیٹل قمار خانوں میں جھونک دیتے ہیں۔ نوجوان لڑکے، جو تعلیم کے میدان میں کچھ بن سکتے تھے، اپنی توجہ آن لائن بیٹنگ ایپس، قمار بازی اور چانس کے کھیلوں میں لگا بیٹھے ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنے خاندان کی جمع پونجی تک داؤ پر لگا دیتے ہیں اور پھر جب نقصان ہوتا ہے تو وہ معاشرتی، نفسیاتی اور مالی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ’’قسمت آزمانے‘‘ کے نام پر کیا جا رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سراسر دھوکہ اور بربادی کی راہ ہے۔ کئی گھروں میں جھگڑے، خودکشیوں کے واقعات، قرضے اور عزت کا جنازہ اسی لت کی بدولت نکل چکا ہے۔معاشرے میں اس رجحان کے خلاف شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت، علما، اساتذہ اور والدین کو مل کر ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جو نوجوانوں کو اس تباہ کن راستے سے واپس لائیں۔ صرف پمفلٹ یا تقریر سے بات نہیں بنے گی بلکہ اسکولوں میں اخلاقی تعلیم، مساجد میں جمعہ کے خطبات اور سوشل میڈیا پر موثر مہمات کے ذریعے اس خطرناک لت کے خلاف ماحول بنایا جانا چاہیے۔ یاد رکھیں، کشمیر کا اصل چہرہ وہی ہے جو صوفیوں نے دکھایا — قناعت، محنت، سچائی اور روحانی سکون کا چہرہ۔ ہمیں اپنے بچوں کو دوبارہ اسی راہ پر گامزن کرنا ہے جہاں دولت سے زیادہ دیانت اور قسمت سے زیادہ کوشش پر یقین ہو۔

ڈیجیٹل جوئے کی یہ لت صرف فرد کا نہیں بلکہ پورے خاندان اور سماج کا مسئلہ بن چکی ہے۔ کئی بار ایسے واقعات دیکھنے کو ملے ہیں جہاں ایک باپ نے بچوں کی فیس یا ماں کی دوا کے پیسے آن لائن بیٹنگ میں لگا دیے اور نقصان کے بعد احساس ندامت میں ڈوب گیا۔ ایسے افراد اکثر اپنی ناکامی کا الزام دوسروں پر ڈال کر خود کو معصوم ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ حکومت یا کوئی خیراتی ادارہ ان کی مدد کرے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ لت خود پیدا کی گئی ہوتی ہےاور اس سے چھٹکارا پانے کے لیے سب سے پہلے خود احتسابی اور ندامت کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ لوگ نقصان کے بعد بھی باز نہیں آتے بلکہ ’’اگلی بار جیتوں گا‘‘ کی جھوٹی امید میں دوبارہ وہی عمل دہراتے ہیں، جو انہیں تباہی کی آخری حد تک پہنچا دیتا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ڈیجیٹل جوا صرف ایک مالی خسارے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ذہنی اور روحانی بیماری ہے۔ یہ انسان کی عقل، برداشت، خوداعتمادی اور کردار کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔ نوجوان جب رات رات بھر آن لائن بیٹنگ ایپس پر جیتنے کے خواب دیکھتے ہیں، تو وہ نیند، تعلیم، خاندانی رشتے اور ذہنی سکون کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے اندر مایوسی، تناؤ، ڈپریشن اور بے مقصدی کا احساس پروان چڑھنے لگتا ہے۔ ایسے افراد خود کو زندگی کی دوڑ سے پیچھے سمجھنے لگتے ہیں اور یا تو مکمل گمنامی میں چلے جاتے ہیں یا منفی سرگرمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے کئی نوجوان اپنے خوابوں کو چند لمحوں کی لذت پر قربان کر دیتے ہیں اور ان کا مستقبل اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔

لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بحیثیت قوم، بحیثیت والدین اور بحیثیت استاد و رہنما اپنی نئی نسل کو بروقت خبردار کریں۔ انہیں یہ باور کرائیں کہ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا — محنت، صبر، دیانت اور لگن ہی اصل دولت ہیں۔ ہمیں صوفیوں کے پیغام کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا، جو ہمیں خود پر بھروسہ، سادگی اور قناعت کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ زمین، جو ایک وقت میں محبت، امن اور روحانیت کا استعارہ تھی، اب فریب اور لالچ کی لپیٹ میں آ رہی ہے۔ ہمیں اپنی زمین، اپنے بچوں اور اپنی اقدار کو بچانے کے لیے اب بیدار ہونا ہوگا۔ ورنہ کل کا مورخ یہی لکھے گا کہ ’’کشمیر والوں نے اپنی تہذیب ڈیجیٹل دھوکہ بازیوں کے ہاتھ بیچ دی۔‘‘

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بطور معاشرہ اجتماعی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ اگر ہم نے بروقت اپنے نوجوانوں کو ڈیجیٹل جوئے جیسے فتنوں سے نہ بچایا تو نہ صرف ہماری نسل برباد ہوگی بلکہ وہ روحانی اور تہذیبی ورثہ بھی مٹ جائے گا جو ہمارے بزرگوں نے ہمیں صدیوں کی محنت سے عطا کیا تھا۔ اسکولوں میں سائبر کرائم اور جوئے کی تباہ کاریوں پر خصوصی لیکچرز ہونے چاہئیں، دینی اداروں میں خطبوں کا موضوع صرف عبادات تک محدود نہ رہے بلکہ ان معاشرتی بیماریوں کو بھی شامل کیا جائے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ بچوں کے موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال پر نگرانی رکھیں، ان سے بات کریں، ان کے خواب جانیں اور ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ صرف سزا یا تنقید مسئلے کا حل نہیں بلکہ محبت، رہنمائی اور مسلسل مکالمہ اصل علاج ہے۔مزید یہ کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی تمام ایپس اور ویب سائٹس کو بند کرے جو نوجوانوں کو جوا کھیلنے کی طرف راغب کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ منشیات، آن لائن بیٹنگ اور سائبر کرائم کے خلاف ایک جامع حکمت عملی اپنائی جائے جس میں پولیس، تعلیمی ادارے، والدین اور سماجی تنظیمیں سب شریک ہوں۔ میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر بھی اس کے خلاف مؤثر مہمات چلائی جائیں۔ ہمیں نوجوانوں کو ایسے کامیاب افراد کی مثالیں دینی ہوں گی جنہوں نے محنت، علم اور دیانت کے ذریعے اپنی دنیا بدلی، نہ کہ قمار بازی یا شارٹ کٹ طریقوں سے۔ ایک نوجوان جب یہ سمجھے گا کہ اصلی کامیابی وقت مانگتی ہے، قربانی مانگتی ہے اور صداقت مانگتی ہے، تو وہ کبھی بھی جھوٹے لالچوں میں نہیں آئے گا۔

ہم سب کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا حقیقی سرمایہ کیا ہے؟ دولت؟ شہرت؟ یا ہماری نسل؟ اگر ہم نے اپنی نسل کو گمراہی سے نہ بچایا تو نہ دولت بچے گی، نہ عزت اور نہ ہی وہ پہچان جس پر ہمیں ناز ہے۔ آئیے، ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم کشمیر کی روحانی، اخلاقی اور سماجی بنیادوں کو ڈیجیٹل فتنوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیں گے۔ ہم اپنی نسل کو قناعت، محنت، اخلاق اور خلوص کا پیغام دیں گے، تاکہ کشمیر پھر سے اس روشنی کا منبع بنے جہاں سے امن، ہدایت اور سچائی کی کرنیں ساری دنیا کو منور کریں۔
(کالم نگار پیشہ سےاستاد ہیںاور بارہمولہ سے تعلق رکھتے ہیں)
رابطہ۔8082403001
[email protected]

Share This Article