بھارت۔برطانیہ تاریخ سازتجارتی معاہدہ | —نئے بھارت کیلئے ایک زبردست پیشرفت

Towseef
10 Min Read

پیوش گوئل

بھارت اور برطانیہ کے درمیان جامع اقتصادی و تجارتی معاہدہ(سی ای ٹی اے) ایک تاریخ ساز قدم ہے جو بھارتی کسانوں، ماہی گیروں، دستکاروں اور چھوٹے کاروباروں کو عالمی سطح پر مواقع فراہم کرے گا۔ یہ معاہدہ بے شمار روزگار کے مواقع پیدا کرے گا اور عام آدمی کو اعلیٰ معیار کی اشیاء مناسب قیمتوں پر فراہم کرنے میں مدد کرے گا ۔ یہ سب وزیر اعظم نریندر مودی کے وژن کے مطابق ہے۔

یہ معاہدہ آسٹریلیا ، یورپی فری ٹریڈ ایسوسی ایشن ممالک اور متحدہ عرب امارات جیسے ترقی یافتہ ممالک سے پہلے سے کیے گئے معاہدوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ مودی حکومت کی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد اقتصادی ترقی اور روزگار میں اضافہ کر کے ’’وِکست بھارت 2047‘‘کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔

وزیراعظم کی حکمت عملی – 2014 میں مودی حکومت نے بھارتی معیشت میں عالمی اعتماد بحال کرنے اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے بھارت کو پرکشش بنانے کی واضح حکمت عملی اپنائی۔ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے(ایف ٹی اے) اسی وسیع حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ یہ معاہدے سرمایہ کاروں کو تجارتی پالیسیوں کے بارے میں غیر یقینی صورتحال سے بچاتے ہیں، جس سے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔

ایسے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ معاہدے، جن کے بھارت کے ساتھ مسابقتی تجارتی مفادات نہیں ہوتے، سبھی فریقین کے لئے فائدے کی صورت پیدا کرتے ہیں۔ یہ پچھلی حکومت کے برعکس ہے، جنہوں نے بھارتی صنعتوں کو خطرے میں ڈال کر بھارت کے دروازے غیر ملکی مسابقت کے لیے کھول دیے تھے۔

یواے پی اے کے دور حکومت میں ترقی یافتہ ممالک نے بھارت کے ساتھ تجارتی مذاکرات ترک کر دیے تھے، اور بھارت کو دنیا کی ’’کمزور پانچ ‘‘ معیشتوں میں شامل کر دیا گیا تھا۔ لیکن وزیر اعظم مودی کی قیادت میں بھارت کی جی ڈی پی 2014 سے تقریباً تین گنا بڑھ کر 331 لاکھ کروڑ روپے ہو چکی ہے۔ یکسر تبدیلی لانے والی اصلاحات، کاروبار میں آسانیاور وزیر اعظم کی عالمی حیثیت نے بھارت کو دنیا کے لیے ایک زبردست موقع کی حیثیت کا حامل بنا دیا ہے۔

مارکیٹ تک رسائی، مسابقتی برتری – سی ای ٹی اےمعاہدہ بھارتی مصنوعات کو برطانوی مارکیٹ میں تقریباً تمام شعبوں میں مکمل رسائی فراہم کرے گا۔ اس معاہدے کے تحت تقریباً 99 فیصد ٹیرف لائنز پر محصولات ختم کر دیے جائیں گے، جو تقریباً 100 فیصد تجارتی قدر کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس سے موجودہ 56 ارب ڈالر کے دو طرفہ تجارت کو 2030 تک دوگنا کرنے میں مدد ملے گی۔

چھوٹے کاروباروں کو ترقی کرنے کا موقع ملے گا، کیونکہ بھارتی مصنوعات کو دیگر ممالک کے مقابلے میں برتری حاصل ہو گی۔ فٹبال، کرکٹ گیئر اور رگبی بال، کھلونے اور دیگر مصنوعات بنانے والی کمپنیاں برطانیہ میں کاروبار میں خاطر خواہ اضافہ کریں گی۔

بے شمار روزگار – بھارت کی مسابقتی صلاحیت برآمدات میں نمایاں اضافہ کرے گی اور سرمایہ کاری و روزگار کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گی۔ بھارت ٹیکسٹائل، چمڑے اور جوتوں میں برطانیہ کے تین بڑے سپلائرز میں شامل ہونے کی پوزیشن میں آ جائے گا، جس سے چھوٹے کاروباروں، خواتین کاریگر وںاور ہنرمند وں کو عالمی ویلیو چین کا حصہ بننے کا موقع فراہم ہوگا۔

زیورات، انجینئرنگ مصنوعات، کیمیکل اور الیکٹرانک مصنوعات جیسے فون ، کی برآمدات میں بھی اضافہ متوقع ہے۔
کسانوں کو ترجیح – زرعی اور ڈبہ بند خوراک کی 95 فیصد سے زائد ٹیرف لائنز پر صفر ڈیوٹی ہو گی، جو زرعی برآمدات میں تیزی سے اضافے اور دیہی خوشحالی کا راستہ ہموار کرے گی۔
فری درآمدی مارکیٹ تک رسائی سے اندازاً اگلے تین سالوں میں زرعی برآمدات میں 20 فیصد سے زائد اضافہ ہوگا، جو بھارت کے 2030 تک 100 ارب ڈالر زرعی برآمدات کے ہدف میں مددگار ثابت ہوگا کیونکہسی ای ٹی اےمعاہدہ بھارتی کسانوں کے لیے برطانیہ کی اعلیٰ معیار کی مارکیٹ کی رسائی فراہم کرتا ہے، جو جرمنی، نیدرلینڈز اور دیگر یورپی یونین ممالک کو حاصل فوائد کے برابر یا اس سے زیادہ ہے۔

ہلدی، کالی مرچ، الائچی، آم کا گودا، اچار اور دالوں کو بھی ڈیوٹی فری رسائی ملے گی۔ برآمدات میں اضافے سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا نیز معیار،پیکجنگ اور سرٹیفکیشن میں بہتری آئے گی۔ اس سے زرعی ویلیو چین میں نوکریوں کے بڑے پیمانے پر مواقع پیدا ہوں گے ۔

کمزور طبقات کا تحفظ – سی ای ٹی اےمیں بھارت کے حساس زرعی شعبوں کو معاہدے سے خارج کیا گیا ہے تاکہ مقامی کسانوں کا تحفظ کیا جا سکے۔ دودھ سے بنی مصنوعات، اوٹس اور خوردنی تیلوں پر بھارت نے کوئی رعایت نہیں دی۔

مذکورہ مصنوعات کو معاہدہ سے خارج کیا جانا مودی حکومت کی سب کیلئے خوراک کی یقینی فراہمی ، قیمتوں کے استحکام اور کمزور کسانوں کو ترجیح دینے کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔

ماہی گیروں کی خوشحالی – بھارتی ماہی گیروں، خاص طور پر آندھرا پردیش، اڑیسہ، کیرالہ اور تمل ناڈو کے ماہی گیروں کو برطانیہ کی سمندری مصنوعات کی منڈی میں زبردست مواقع ملیں گے۔ برطانیہ کی جھینگے اور دیگر سمندری مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی موجودہ 20 فیصد سے صفر ہو جائے گی۔

اس کا زبردست فائدہ ہوگا کیونکہ اس وقت بھارت کی برطانیہ کے 5.4 ارب ڈالر کی سمندری درآمدات میں صرف 2.25 فیصد حصہ ہے۔
خدمات اور پیشہ ور افراد – یہ معاہدہ آئی ٹی/آئی ٹی ای ایس، مالیاتی خدمات اور تعلیم سمیت خدمات کے شعبے کو فروغ دے گا اور بھارتی ماہرین کے لیے نئے مواقع فراہم کرے گا۔ بھارت نے ماہر پیشہ ور افراد، سروس فراہم کنندگان، کاروباری مسافروں، سرمایہ کاروں، یوگا انسٹرکٹرز، موسیقاروں اور شیفز کے لیے سازگار نقل و حرکت کے اصول حاصل کیے ہیں۔

اختراعی آزاد تجارتی معاہدے – وزیر اعظم مودی کی قیادت میں بھارت کے آزاد تجارتی معاہدے صرف اشیاء و خدمات تک محدود نہیں بلکہ نئی مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ای ایف ٹی اےممالک کے ساتھ بھارت نے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پابند یقین دہانی حاصل کی جو 10 لاکھ براہ راست روزگار پیدا کرے گی۔ آسٹریلیا کے ساتھ ایف ٹی اے میں بھارت نے آئی ٹی کمپنیوں کو درپیش دہرے ٹیکسیشن کا مسئلہ بھی حل کیا۔

برطانیہ کے ساتھ معاہدے کے سب سے اہم پہلوؤں میں سے ایک ڈبل کنٹریبیوشن کنونشنہے۔ یہ کنونشن برطانیہ میں موجود آجروں اور عارضی بھارتی کارکنوں کو تین سال تک سماجی تحفظ (سوشل سیکورٹی) کی شراکت سے استثنا دیتا ہے۔یہ اقدام بھارتی خدمات فراہم کنندگان کی مسابقتی صلاحیت میں نمایاں اضافہ کرے گا۔

صارفین کے لیے معیاری اشیاء – تجارتی معاہدے(ایف ٹی ایز) سے مسابقت میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے بھارتی صارفین کو اعلیٰ معیار کی اشیاء مناسب قیمتوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ مودی حکومت نے اس سلسلے میں پالیسی معاونت فراہم کی ہے، کوالٹی کنٹرول سے متعلق احکامات جاری کیے ہیں اور معیار کو فروغ دینے کے لیے آزاد تجارتی معاہدے طے کیے ہیں۔

معاہدے پر دستخط سے قبل حکومت نے صنعت اور دیگر فریقین کے ساتھ وسیع صلاح و مشورے کئے ۔ یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ صنعت سے وابستہ اداروں نے مودی حکومت کی جانب سے کیے گئے ہرایف ٹی اے کو دل سے سراہا اور مکمل حمایت دی ہے۔

سی ای ٹی اےترقی یافتہ معیشتوں کے درمیان منصفانہ اور بلند ہدف رکھنے والے تجارتی معاہدوں کے لیے ایک معیار بن چکا ہے۔ یہ معاہدہ ہمارے بنیادی قومی مفادات کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر کمزور طبقوں کے لیے بھی پُرکشش عالمی مواقع پیدا کرتا ہے ۔نیا بھارتکس طرح عالمی سطح پر کاروبار کرتا ہے، یہ اس بات کی روشن مثال ہے ۔

(مضمون نگار مرکزی وزیربرائے صنعت و حرفت ہیں۔)
مضمون بشکریہ پی آئی بی

Share This Article