! مسیحا جب غنڈہ گردی پر اتر آئیں

Towseef
5 Min Read

یہ امر اطمینان بخش ہے کہ وزیر صحت و طبی تعلیم سکینہ ایتو نے صدر ہسپتال سرینگر کا دورہ کرکے وہاں ڈاکٹروں کی حالیہ ہڑتال کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اس کو بلا جواز اور ناقابل قبول قرار دیا ۔وزیر صحت نے بجا طور کہا کہ ایمر جنسی ،آپریشن تھیٹروں ،وارڈوں کو بند کرکے مریضوں کو مشکلات سے دوچار کرنے کا ڈاکٹروںکو کوئی اختیار نہیںہے اور انہیں اس کی سزا ملنی چاہئے ۔وزیرصحت نے کہا کہ جہاں ڈاکٹروںنے ساتھ ناروا سلوک ٹھیک نہیں ہے اور اس سلسلے میں قانون اپنا کام کررہا ہے وہیں ڈاکٹروں کو دنیا کا کوئی قانون یہ اختیار نہیںدیتا ہے کہ وہ ہسپتال کے دروازے بند کرکے ہڑتال پر چلے جائیں اور مریضوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔

گزشتہ تین روز سے احتجاج کے نام پر صدر ہسپتال میں جو ڈرامہ چل رہا تھا اور مریضوںکے ساتھ جو کھلواڑ کی جا رہی تھی ،امید کی جارہی تھی کہ حکومت حرکت میں آئے گی اور اس لاقانونیت کا کوئی سدباب کیاجائے گا تاہم جس طرح تین روز تک مریضوں کو ان احتجاجی ڈاکٹروںکے رحم و کرم پرچھوڑ دیاگیا ،وہ قابل قبول نہیں تھا ۔دیر آید درست آید کے مصداق تاخیر سے ہی سہی ،حکومت جاگ گئی اور سکینہ ایتو نے نہ صرف صدر ہسپتال کا دورہ کیا بلکہ ہسپتال کے اندر ہی اُن احتجاجی ڈاکٹروںکو سخت پیغام پہنچایاجو شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔

ان احتجاجی ڈاکٹروں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ کسی عمومی پیشے سے تعلق نہیں رکھتے ہیں بلکہ ایک مسیحائی پیشےسے تعلق رکھتے ہیں جہاں انہوںنے مریضوں کی جان بچانے کی قسم کھا رکھی ہوتی تھی ۔ایک ڈاکٹر حلف کا پابند ہوتا ہے ۔اُس نے باضابطہ یہ حلف لیا ہوتا ہے کہ وہ مریض کی جان بچانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرے گا اور اس سلسلے میں کسی بھی حد تک جائے گا لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔یہاں ڈاکٹر مریضوںکی جان بچانے کی بجائے مریضوںکی جان لینے پر تُلے ہوئے تھے کیونکہ اس ہڑتال کے دوران ایمر جنسی بند رہنے کی وجہ سے کئی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔ایمر جنسی میں تعینات ایک ڈاکٹر کو پڑا کسی تیماردار کا تھپڑ اتنا گراں گزار کہ اس کے سارے ساتھی ہڑتال پر چلے گئے لیکن کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ تیماردار ایک ڈاکٹر کو یہ تھپڑ مارنے پر مجبور کیوں ہوا ؟۔ کوئی اتنا پاگل نہیں ہے کہ وہ ہسپتال میں جان بچانے کی کوشش کرنے والے کسی ڈاکٹر کو یونہی تھپڑ مارے ۔ایمر جنسی میں جب مریض موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے تو مریض اور اس کے تیماردار کیلئے ڈاکٹر ہی امید کا واحد سہارا ہوتا ہے اور موت اور زندگی کے درمیان ڈاکٹر ہی ہوتا ہے ۔مریض اور اس کے تیماردار چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کچھ کرے بس اُس کی جان بچالے لیکن جب یہی ڈاکٹر کوئی ٹھوس کوشش کرنے کی بجائے اپنے فرائض کو سرسری لے اور اپنی ڈیوٹی کو کسی دوسری ڈیوٹی کی طرح ہی لے تو مریض یا تیماردار کا آگ بھگولہ ہونا لازمی ہے ۔

اگر تھپڑناگوار گزرتا ہے تو کوشش کریں کہ اس کی نوبت ہی نہ آئے ۔اندازہ کریں کہ ڈاکٹر اپنے لئے سیکورٹی مانگ رہے ہیں حالانکہ ڈاکٹر مسیحا ہے ۔آخر کیوں ڈاکٹر کو بے بس لوگوں سے سیکورٹی چاہئے ؟۔ ڈاکٹروں کو ایمر جنسی میں بے بسی کی حالت میں ڈاکٹروںکی جانب امید بھری نگاہوں سے دیکھنے والے تیمارداروں سے ڈر کیوں لگ رہا ہے ؟۔ کچھ تو گڑ بڑ ہے ۔کیا ڈاکٹر اپنے فرائض سے غفلت تو نہیں برت رہا ہے ؟۔ اگر ڈاکٹر اپنے فرائض بحسن خوبی انجام دے تو اُس کو کس بات کا ڈر ۔جب تیماردار کو لگے کہ ڈاکٹر اس کے مریض کو بچانے کی کوشش کررہا ہے تو وہ اس پر حملہ کیوں کرے گا؟۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ڈاکٹروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے جنہوںنے احتجاج کے نام پر پورے صدر ہسپتال کو یرغمال بنا کے رکھا تھا اور جن کی اس غنڈی گردی کی وجہ سے کئی مریضوںکی جانیں بھی چلی گئیں ۔اگر اس بار کوئی مثالی سزا ملی تو آئندہ کوئی ہٹ دھرمی کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔

Share This Article