ڈاکٹر منظور احمد آفاقی
تغیر وتبدل انسانی زندگی میںوقوع پذیر ہونا ایک بہترین عمل بن گیا ہے۔یعنی بنی نوع انسان زندگی کے اس نازک سفر میںپانی کے مدوجزر کی طرح ایک ہی سمت کی جانب رواں دواں نہیں رہتا۔بلکہ پانی کے تیز بہاؤ کی طرح وقتاًفوقتاً اپنی منزل خود طے کر لیتا ہے۔ایک انسان پیدائش سے لے کر مو ت تک سبق آموز نصیحت ایک دوسرے سے ضرور اخذ کر لیتا ہے،بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ اولادِآدم پیدائش سے لے کر موت تک چارمرحلوں سے ضرور گزرتا ہے۔ان ہی چار مراحل سے گزرنا انسان کی کل دنیاوی کائنات سمجھی جاتی ہے۔مطلب صاف طور پر ظاہر ہے کہ انسان کی کل محنت ومشقت اسی دنیا کے تئیں ہی مطلوب ہے۔دنیا کے اس سفر میں انسان اپنے اور اپنے عزیز واقارب کی شاہانہ زندگی گزارنے کے لیے گاہے گاہے جھوٹ،دھوکہ دہی اور حرص میں مبتلا ہوکراپنے ایمان کے ساتھ کھلواڑ کرلیتا ہے۔لیکن ان سارے عوامل کی سر انجام دینے کے بعد منجملہ کوئی مثبت نتیجہ نکل کے سامنے نہیں آتا ہے،بلکہ ان سارے عوامل سے چشم پوشی کرکے اسے آخر ذلت اور رسوائی ہی ہاتھ آجاتی ہے۔خیر زندگی کے اس نازک سفر میں ہر بنی آدم کو سب سے پہلے بچپن کے حسین اور نازک موڑ میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ان حسین اور چنندہ اوقات میںہربچہ اپنے والدین،بھائی بہن اور دیگر عزیزواقارب کا محتاج ضرور ہوتا ہے۔بچپن کی اس خوبصورت زندگی میںہر شیر خوار بچے کو کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ ساتھ اندازِ تکلم اور اُٹھنے بیٹھنے میں دوسروں کا سہارا ضرور لینا پڑرہا ہے۔ان ہی اوقات میںبچہ اس بات کی تربیت اور اس بات کی امید و آس لگا کے بیٹھتا ہے کہ شاید مجھے زندگی بھر انہیں کے سہارے چلنا پڑے گا۔لیکن یہ سلسلہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا چلا جارہا ہے ۔یعنی انسان اب آگے بڑ ھ کر دوسروں کے سہارے اپنی زندگی گزارنا نہیں چاہتا ہے ۔یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا بے حد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سن بلوغت تک والدین اور دیگر صورت ِآشنائی کام آجاتی ہے،لیکن آگے چل کر یہ سارے سلسلے ایک دم ختم ہو جاتے ہیں۔ایک بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی مرحلے میںمعاشرے کے تہذیب وتمدن اور دیگر ضروری اموار سے واقفیت ضرور حاصل کر لیتا ہےبلکہ اس واقفیت کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کی امیدوں کے سہارے ہی زندگی کی اس تیز رفتار گاڑی کو صحیح سمت میں لے جانے کی کوشش میں تُلا رہتا ہے۔لیکن حقیقت اس کے قدرے مختلف ہوتی ہے۔جتنی زندگی کی اس گاڑی میں انسان محو سفر ہوتا چلا جارہاہے، اتنی ہی دوسروں سے وابستہ امیدیں بھی دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔بسا اوقات زندگی میں ایک شیر خوار بچہ اپنے والدین اور دیگر نزدیکی رشتہ داروں کو اپنا مسیحا مانتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ سارے مسیحائی سہارے ایک دم صفر ہو جاتے ہیں۔اگرچہ انسان ایسے حالات کے ہوتے ہوئے بھی انہی چیزوں پرپوری آس لگائے بیٹھا رہتا ہے ۔لیکن آخر میں ایک شیر خوار بچے کو دنیا کے یہ سارے معاملات سے کچھ عجیب نتائج برآمد ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ایک بچے کے اندرپھر بھی دنیا کی اس مادی مخلوق کے ساتھ بہت ساری اُمیدوں اور راحتوں کو گُل ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا ہے۔خیر جو بھی ہے سو بہتر ہے ۔اپنا تو یہ قول ہے کہ زندگی امیدوں اور دیگر قول قرار کے سہارے ہی دنیا ومافیہا سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔غرض ان ساری مصنوعی لبادہ چیزوں کے ہوتے ہوئے انسان کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ لو لگانے سے فرحت بخش زندگی اور اطمینان حاصل ہوسکتا ہے۔
ایک بچہ سن بلوغت میں پہنچ کر دنیا کے اطراف واکناف کی سیر منٹوں میں کرنے کا خواہاں بن جاتاہے،اور اپنی محنت اور خداداد صلاحیتوں سے خود سیاروں اور ستاروں کی گردش کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے ،بلکہ ایسی منزل میں انسانی جسم کے اندر گرم خون،دنیا میں اپنی تانا شاہی حکومت اور دیگر امورات کو چٹکیوں میں پاؤں تلے لانا چاہتا ہے۔ان اوقاتِ زیست میں عام طور پر انسان مجازی محبوب کی ساعد سیمیں اور محبوب کے خوبصورت اداؤں میں ہی اپنے آپ کو مقید کرنا چاہتا ہے۔جبکہ آجکل حد تو یہ ہے کہ انسان محبوب کے ہونٹوں اور زلف گیر اداؤں کے سہارے ہی اپنی زندگی گزارنے کو ہی اصل کامیابی سے تعبیر کرتا ہے۔یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان انہی مصنوعی چیزوں پر ایمان وایقان رکھتا ہے۔بہر حال امید ایک ایسی شے ہے جسے زندگی کے ہر موڑ میں اولیت کا درجہ حاصل ہے اور اسی کے سہارے انسان اپنے مستقبل کی خوابوں کو شرمندۂ تعبیر ہونے میں ایک پختہ یقین رکھتا ہے۔غرض زندگی میں کسی غیراللہ اور مادی مخلوق سے ایسی امیدوں کا وابستہ کرنا آفتاب کو چراغ دکھانے کے برابر ہے۔کیونکہ اصل امید تو صرف اور صرف اللہ کے ہاں رکھنی چاہیے اور اسی کی ذات انسانی زندگی کو دنیاوی اور اخروی خوشی سے منور کرسکتی ہے۔اس موڑ میں انسان کو ایک حقیقی خوشی سے بھی سابقہ تقریباًضرور پڑتا ہے یعنی شادی بیاہ ہوکر اب وہ دوبارہ اسی ارضی مخلوق کے سہارے اپنے آپ کو خوشی سے سرفراز ہوناچاہتا ہے۔ لیکن ایک بلند خیال اور بالیدہ شعور انسان کو ایسے وقتی چیزوں پر بھی اطمینان اور بھروسہ نہیں رکھنا چاہیے۔کیونکہ اسلام اور دیگر مثبت تعلیمات میں بھی ایسے امور کی نفی کی گئی ہے،جو انسان کے لیے سم قاتل کا کام کرسکتا ہے،بلکہ دین اسلام میں واضح طور پر ایسے اشارات اور باضابطہ اس بات سے آگاہ کیا گیاہے کہ انسان کو ہمیشہ اپنے محبوبِ حقیقی کے علاوہ کسی اور سے امید وبھروسہ نہیں رکھنا چاہیے۔کیونکہ ایسے امور پر ایمان رکھنا انسان کی خام خیالی سے تعبیر کی جاتی ہے۔لیکن اصل میں ان ساری دنیاوی راحتوں اور بناوٹی چیزوں پر اعتماد تب ٹوٹ جاتا ہے جب انسانی زندگی میں آزمائش یا دیگر اُتاروچڑاؤمیں ان چیزوں کی جب اشد ضرورت پڑتی ہے۔تب یہ ساری امیدیں اور سہارے لاکھ کوشش کرنے کے باوجود بھی کوئی فائدہ پہنچانے سے قاصر رہتے ہیں۔اب تک کے مطالعے سے یہی بات اخذ کی گئی ہے کہ خالقِ لم یزل کے علاوہ دنیا کی کوئی بھی قیمتی یا اپنا پن ظاہر کرنے والی چیز نے انسانی وعدے کی وفا نہیں کی۔بلکہ الٹے پاؤں بھاگ کر اُمید باسطہ انسان کو اپنی حقیقت سے آشنا ضرور کرتا ہے۔دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جہاں وقت آنے پر پرائے کیا بلکہ اپنے بھی منہ موڑ کر دوسری راہ اختیار کر جاتے ہیں۔مطلب اپنے عزیزواقارب اگرچہ پہلے تو کھوکھلے دعوے کرجاتے ہیں لیکن وقت مقررہ پر وہ بھی اپنے وعدوںسے مکر جاتے ہیں اور پھر یہی بہانہ بنانا شروع کر دیا جاتاہے کہ اگر مجھے یہ وہ نہ ہوتا تو میں ضرور خلوص نیت کے ساتھ آپ کا معاون ومددگار بنتا۔البتہ اتنی بات طے ہے کہ اگر بنی نوع انسان کو کسی چیز میں کوئی رخ اپنے فائدے کے لیے نظر آتا تو وعدہ نبھانا اُس وقت بالکل آسان معلوم ہوجاتا ہے۔
نوجوانی کے بعد انسانی زندگی میں ایک خطرناگ موڑ آجاتا ہے۔ جب انسان کی زندگی میں ایک نئی امید اور آس جاگنے لگتی ہے۔ایسے موڑ میں انسان کے اندر بالیدہ ٔشعور کی کرن جاگ جاتی ہے اور انسان ایک نئی آب وتاب کے ساتھ اپنے آپ کو معاشرے کے سامنے پیش کرنے کی مثالی کوشش کر جاتا ہے۔یعنی اب انسان ایک طرف سے اگرچہ پختہ اور بالیدہ بن جاتا ہے لیکن اس پختگی کے مابین بھی اسے دنیاوی چیزوں کے سہارے ہی اپنی زندگی کی اصل کامیابی کا راز دکھائی دے رہا ہے۔حالانکہ اصل میں زندگی کے کسی بھی موڑ میں ان مصنوعی چیزوں کے برعکس امیدِ پیہم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے پیوست کرنا چاہیے اور اسی سے اصل فلسفۂ زندگی حاصل ہو جاتا ہے۔ اس موڑ میں بھی انسان کو کسی حد تک دوسروں کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔لیکن ایسے حالات میں انسان آہستہ آہستہ ایک نئے امتحان کی جانب بڑھ جاتا ہے۔ان اوقاتِ زیست میں ایک بنی نوع انسان کو اپنے عزیزواقارب کے ساتھ ہمدردی،اخوت اور پیارومحبت کے لیے سینہ سپر ہوکر آہنی قوت کے ساتھ ہمدردی کرنی شروع ہوجاتی ہے ۔
آخر پر انسان زندگی کے سب سے آخری اور نازک موڑ میں جاکر ہی چین وسکون حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ ایک ایسا موڑ ہے جہاں انسان کو دنیاوی مال ودولت اور دیگرجاہ وحشمت کی قطعی طور پر کوئی حرص دل کے اندر نہیں رہتی۔بلکہ وہ اپنا سب کچھ اپنے حقیقی مالک کے تئیں ہی نچھاور کرنا چاہتا ہے اور زیادہ سے زیادہ وقت یادِ الٰہی میں ہی صرف کرنا چاہتا ہے۔لیکن ایسے موڑ میں یادِ الٰہی بھی انسان کے لیے سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔کیونکہ بڑھاپے کی اس کنڈیشن میں انسان کا پورا جسم ضعیفی کی وجہ سے کسی بھی کام کو بخوبی سرانجام نہیں دے سکتا ہے۔یہاںیہ چیزبھی مزے سے خالی نہیں ہے کہ ایسی نازک اور ضعیف الجثہ حالت میں بھی انسان کو صرف اور صرف زیست کے اوقات اپنے حقیقی مالک کے تئیں ہی امیدِ پیہم لگاکر ہی گزارنی چاہیے۔کیونکہ ایسا طے ہے کہ زندگی کے ہر لمحے پر انسان کو بنیادی طور پر امیدِ قوی صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ رواں رکھنے سے زندگی کی جنگ میں ایک کامیاب سپاہی کی ماننداپنی پہچان بنانے میںکسی قسم کی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔اگرچہ جزوی طور پر انسان دوسروں کے سہارے بھی خوشگوار زندگی گزارنے پر ایمان وایقان رکھتا ہے ۔لیکن میرے خیال میں ایسا خام خیالی ہے کیونکہ زندگی میں ایک انسان کو اپنے قریبی اور دیگر عزیز واقارب سے زیادہ اپنے خالقِ لم یزل کے ساتھ سچی اور دائمی امید رکھنی چاہیے۔ایسا کرنے سے دنیا کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی بھی خوشگوار اور سکون وانبساط فراہم کرنے والی ثابت ہوتی ہے۔لہٰذا اللہ تعالیٰ ہم سب کو دنیاوی تغیر وتبدل کے ہوتے ہوئے بھی اپنے ساتھ کامل اور پختہ امید وابستہ رکھنے کی صلاحیت اور توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
رابطہ۔6005903959