Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
کالممضامین

! ٹوٹتے رشتے اور بکھرتے خاندان، ایک المیہ معاشرت

Towseef
Last updated: July 23, 2025 11:13 pm
Towseef
Share
11 Min Read
SHARE

سبزار احمد بٹ

انسانی معاشرے اور سماج کو روزِ اول سے ہی مختلف نوعیت کے مسائل اور مشکلات کا سامنا پڑ رہا ہے ۔ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ یہ مسائل اور مُشکلات بدلتے رہتے ہیں ۔ ان مسائل اور مشکلات میں بیشتر مسائل ایسے ہیں جو انسان کے خود پیدا کردہ ہوتے ہیں ۔ چاہیے ماحولیاتی آلودگی کا معاملہ ہو یا منشیات کی وباہ، اخلاقیات کا روبہ زوال ہونا ہو یا رشتوں کی پامالی ۔ دراصل اللہ نے ایک پورا نظام بنایا ہوا ہے جس کے تحت اگر انسان زندگی گزارے تو سب کچھ بہتر طریقے سے چلے گا ۔ بات تب بگڑتی ہے جب انسان اس نظام کے خلاف اپنی زندگی گزارنا شروع کرتا ہے ۔ جب انسان اس دنیا میں آتا ہے تو وہ ہر لحاظ سے محتاج ہوتا ہے، لیکن اللہ نے اس کی مدد اور رہنمائی کے لئے اس کے والدین، دادا دادای، نانا نانی، چاچا چاچی اور باقی رشتوں کی صورت میں انتظام کیا ہوتا ہے ۔ سب لوگ اُس سے پیار کرتے ہیں ۔بچے کے ساتھ اگر یہ رشتے جڑے نہیں ہونگے تو بچے کی زندگی گزارنا کتنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ جب یہ بچہ بڑا ہو جاتا ہے تو اپنے ان رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے۔ جب یہ بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے والدین ، دادا دادی اور نانا نانی کو اُس کی ضرورت ہوتی ہے اور اُس وقت انسان ان رشتوں کی اہمیت کو سمجھتا ہے ۔ قرآن کریم میں اس سلسلے میں واضح ہدایات دی گی ہیں اور رشتے داروں سے صلہ رحمی پر زور دیا گیا ہے ۔ لیکن بدقسمتی کی وجہ سے موجودہ دور میں جہاں مختلف مسائل اور مشکلات نے انسانی معاشرے کو اپنی گرفت میں لیا ہے، وہاں رشتوں کا بکھرنا اور خاندانی تصور کا مٹنا ایک اہم مسئلہ بن کر اُبھر رہا ہے ۔ آجکل انسانی رشتوں کی اہمیت اگر ختم نہیں ہوئی تاہم کم سے کم ضرور ہوئی ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب گاؤں کا کوئی بھی بزرگ اس قدر با اختیار ہوتا تھا کہ گاؤں کے کسی بھی بچے کو ڈانٹ سکتا تھا اورکوئی شخص کسی بزرگ کو ایسا کرنے سے نہیں روکتا ۔ والدین اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے کہ ان کے بچوں کسی بات پر کسی بزرگ نے ڈانٹا ہے۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گاؤں کے بزرگ سب بچوں کے لیے دادا دادی، نانا، نانی، جیسی اہمیت رکھتے تھے اور بزرگ بھی یہ فریضہ بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے ۔ رفتہ رفتہ انسانی مزاج میں تبدیلی آتی گئی، والدین نے بھی یہی سمجھا کہ ہمارے بچے کو کوئی کیوں ڈانٹے ،جو مرضی ہمارا بچہ کرے ،اس پر صرف اپنے خاندان کے لوگوں کا حق ہے ۔ ماں باپ کا، دادا دادی کا یا نانا نانی کا۔ اس طرح سے بزرگوں کی اہمیت کم ہوتی گئی، یہاں تک کہ ہمارے بچے بزرگوں کے سامنے کوئی بھی الٹی سیدھی حرکت کرنےمیں کوئی ہچکچاہٹ نہیںکرنے لگے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی بزرگ کسی بچے کو نصیحت کرنے کی کوشش کرتا تو بچے پر ناگوار گزرتا اور بچے بزرگوں کے منہ بھی لگنے لگے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے بزرگوں نے معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئےبچوںسے اپنا پلو جھاڑنا شروع کر دیا۔والدین نے دھیرے دھیرے بچوں پر نظر رکھنے اور بچوں کو ڈانٹ ڈپت کا اختیار دادا دادی اور نانا نانی سے بھی چھین لیا۔ والدین نے یہی سمجھا کہ ہمارے بچے آزاد رہنے چاہیے۔اس طرح والدین نے اپنے بچوں کو اپنے آپ تک محدود کر دیا۔ جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے بچے جب اپنی دادا دادی اور نانا نانا کے پاس بیٹھتے تھے تو گھر کے یہ بزرگ انہیں ایسی کہانیاں سناتے تھے جس سے نہ صرف ہمارے بچوں کی یادداشت میں اضافہ ہوتا تھا بلکہ ہمارے بچے غیر شعوری طور پر بہت سی اخلاقی قدریں سیکھتے تھے اور بچوں پر عمر بھی ان کہانیوں کا اثر رہتا تھا ۔ جیسے آپ لوگوں کو بھی اپنے دادا دادی اور نانا نانی کی سنائی گئی کہانیاں ابھی یاد ہونگی ۔ لیکن بچوں کو ان بزرگوں سے الگ کر کے دراصل پریوں کی کہانیوں سے الگ کر دیا گیا ۔

خیر ہم نے اپنے بچوں بلکہ نئی نسل کو ان دو حصاروں سے آزادی دلاکر انہیں اپنے آپ تک محدود کر دیا ۔پھر ان بچوں کو والدین کی ڈانٹ ڈپٹ سے بھی دم گھٹنے لگا اور وہ اس آخری حصار سے بھی آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگ گئے ۔اب اگر گھر کا کوئی فرد بچے کو ڈانٹے تو بچہ فوراً روٹ جاتا ہے اور گھر کے باقی افراد اس شخص سے سوری(sorry) کرنے کے لیے کہہ دیتے ہیں ،اور اُسے مجبوراً سوری کہنا پڑتا ہے۔ بظاہر سب کے لیے یہ ایک مشغلہ ہو سکتا ہے لیکن اس عمل سے بچے کی شخصیت پر منفی اثر پڑتا ہے اور اس میں قوت برداشت کم ہوجاتا ہے۔ بہرحال اس سب سے نتیجہ یہ ہوا کہ رشتوں اور خاندانوں کا تانا بانا بکھرنے لگا۔ رشتوں اور خاندانوں کا تانا بانا مغربی ممالک میں بہت پہلے بکھر چکا تھا اور وہ اس وقت خون کے آنسو رو رہے ہیں ۔ جہاں ہر نئے دن کے ساتھ اولڈ ایج ہومز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔ نہ بیٹا باپ کا ہے نہ بیٹی ماں کی، نہ بھائی بھائی کا ہے اور نہ بیوی شوہر کی ۔ روزانہ طلاق کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کہیں ہم مغربی طرز کے نظام زندگی کو تو اپنانے نہیں جا رہے ہیں ۔اگر ایسا ہے تو ہمیں بربادی کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ہم اگر اپنے آپ سے آج یہ سوال
کریں گے کہ ہم میں سے کتنے لوگوں کے والدین زندہ ہیں، ہم میں سے کتنے لوگوں کے قریبی رشتہ دار زندہ ہیں؟ اور کیا ہم ان کی خبر رکھتے ہیں کہ وہ کس حال میں ہیں؟ کیا ہم اپنی بہنوں اور اپنے بھائیوں کے گھر جاتے ہیں ؟ کیا ہم نے رشتوں میں پیدا ہوئی ناراضگی کو مٹانے کی پہل کی ہے،سال میں ہم کتنی بار اپنے رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہیں؟کہیں ہم رشتہ داروں کے پاس جانا معیوب تو نہیں سمجھتے ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہمیں کسی دوسرے سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے پوچھنے ہیں ۔ کیونکہ آج جو کچھ ہم کریں گے ہمارے بچے وہی کچھ سیکھیں گے۔وہ وہی سب کچھ سیکھتے ہیں جو ہم کررہے ہیں۔اگر ہم اپنے والدین کا خیال رکھیں گے تو کل ہمارے بچے بھی ہمارا خیال رکھیں گے ۔اگرہم اپنے والدین کے ساتھ بدسلوکی کریں گے تو کل ہمارے بچے ہمارے ساتھ بدسلوکی کریں گے اور یہ انسانی فطرت ہے۔ آج کل رشتوں کی اہمیت اس قدر بگڑ گئی ہے کہ جوان بیٹا اپنی ماں اور اپنے باپ کو سرِراہ ذلیل کرتا ہے، ان پر ہاتھ اٹھاتا ہے ۔ہاے افسوس! جگر چھلنی کر دینے والے ویڈیوز منظر عام پر آجاتے ہیں ۔ کہیں پر ماں اپنا زخمی چہرہ لے کر نمودار ہو جاتی ہے کہ بیٹے نے مارا ہے، تو کہیں پر باپ اپنی روداد سناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ۔

افسوس صد افسوس !یہ معاملات دیکھ کر ہر ذی حس انسان دم بہ خود ہوجاتا ہے ۔ آخر ہمیں ہو کیا گیا ہے، ہم کس جانب جا رہے ہیں ۔ کہیں ہم نے یہ بیج خود تو نہیں بوئے ہیں جن کا اب ہمیں پھل مل رہا ہے ۔ہم نے اپنے پیارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ جن تعلیمات میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ ماں کے کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا دروازہ ہے ۔آجکل جہاں ہر طرف تعلیم کا دور دورہ ہے وہاں ہماری اخلاقیات کو کیا ہوا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں، آپ سے پوچھتا ہوں ۔ ممکن ہے کہ آپ کے پاس ان سوالات کے بہتر جوابات ہوں یا ان مسائل کا حل ہو ۔ لیکن میں اپنی رائے دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں ۔ اخلاقیات یا تو مذہبی تعلیمات سے ممکن ہے یا بزرگوں کی صحبت سے یا کتابوں سے ۔ لیکن افسوس! ہم نے اپنے بچوں کو درسگاہوں سے بھی دور رکھا ہے، بزرگوں کو پہلے ہی ہم نے اپنی زندگی سے نکال دیا ہے اور کتابوں کے پاس ہمارے لیے وقت ہی کہاں ہے۔ ہم فقط وہ ہی کتابیں پڑھتے ہیں جن کا ہمیں امتحان دینا ہوتا ہے۔ باقی ہمیں موبائل ہی نہیں چھوڑتا ہے اور پھر اخلاقیات یا اخلاقی قدریں اگر پیدا ہونگی تو کہاں سے؟ ہمیں پھر ایک بار اپنی روایات کو بحال کرنا ہوگا ۔ بزرگوں اور گھر کے بڑوں کو عزت و احترام دینا ہوگا ۔ اپنے بچوں کو درسگاہوں کی راہ دکھانی ہو گی تاکہ پھر سے ٹوٹتے رشتے اور بکھرے خاندان بحال ہوں ۔

رابطہ۔7006738436

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
قومی اردو کونسل پورے ملک میں فروغِ اردو کے لیے قابلِ قدر کام کر رہی ہے: غلام علی کھٹانہ
تازہ ترین
ہم پر امید ہیں کہ رواں پارلیمنٹ سیشن کے دوران ہی ریاستی درجے کی بحالی کا فیصلہ کیا جائے گا: نائب وزیر اعلیٰ
تازہ ترین
غزہ پر اسرائیلی بمباری انسانیت کے ضمیر پر دھبہ: میرواعظ عمر فاروق
تازہ ترین
جموں میں محمد پرویز کی ہلاکت پر عمر عبداللہ کا اظہار افسوس، تحقیقات کا کیا مطالبہ
تازہ ترین

Related

مضامین

ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ میں تاخیر کیوں؟ تاخیر ِنکاح بدکاری کا سبب بن جاتا ہےاور وبال والدین پر آتا ہے

July 24, 2025
مضامین

اُمید ِ پیہم صرف اللہ تعالیٰ سے! فہم و فراست

July 24, 2025
مضامین

اسلام کی خوبی اور بسم اللہ کی برکات فکر و فہم

July 24, 2025
مضامین

فجر کے بعد زندگی! عبادت، فطرت اور نظمِ حیات کا امتزاج

July 24, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?