بلال فرقانی
سرینگر//کارپٹ ایکسپورٹ پرموشن کونسل کے بورڈ ممبر شیخ عاشق نے کہا کہ کشمیری قالین کی صنعت اس وقت شدید بحران کا شکار ہے کیونکہ جعلی اور مشینی قالینوں کی بڑھتی ہوئی فروخت نے نہ صرف کشمیری دستکاری کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اس صنعت سے وابستہ ہزاروں ہنرمندوں کے روزگار کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ عاشق نے کشمیری دستکاری صنعت کے تحفظ کیلئے حکومت اور متعلقہ اداروں سے فوری اور موثر اقدامات کی اپیل کی۔شیخ عاشق نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بازاروں میں جعلی اور مشینی قالینوں کی فروخت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جنہیں مقامی شوروموں میں کشمیری دست کاری قالین کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کچھ تاجر اور پرچوں دکاندار ایران اور ترکی جیسے ممالک سے درآمد شدہ مشینی قالینوں کو کشمیری ہینڈ لوم قالینوں کے ساتھ ملا کر بیچ رہے ہیں، جس سے نہ صرف کشمیری دستکاری کی ساکھ کو عالمی سطح پر نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ ہزاروں ہنرمند کاریگروں کا روزگار بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔شیخ عاشق نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’ایک کشمیری قالین کسی کاریگر کی سال بھر کی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے، جبکہ مشینی قالین ایک دن میں تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ غیر مساوی مقابلہ کاریگروں کو بے روزگاری کی طرف دھکیل رہا ہے اور ہماری ثقافتی وراثت خطرے میں ہے‘‘۔انہوں نے حکومتی لاپرواہی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کی کارروائی ہمیشہ تاخیر کا شکار ہوتی ہے، جب تک کہ صارفین گمراہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ شیخ عاشق نے زور دیا کہ مشینی قالینوں کو فوری طور پر ہینڈ لوم مراکز سے ہٹایا جائے اور ان کی الگ شناخت کیلئے سخت اقدامات کیے جائیں۔انہوں نے واضح لیبلنگ، جی آئی ٹیگ کے مؤثر نفاذ اور جعلسازی یا دھوکہ دہی میں ملوث کاروباریوں کے خلاف سخت سزاؤں کی سفارش بھی کی۔ شیخ عاشق نے کہا’’کشمیری قالین کی اصل شناخت کا تحفظ صرف روزگار کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ہماری تہذیب، ثقافت اور عالمی وقار کا مسئلہ ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو فوری طور پر حرکت میں آنا چاہئے۔ ہم سب اس صنعت کو بچانے کیلئے ہر ممکن تعاون دینے کو تیار ہیں۔پریس کانفرنس میں’ میراث‘ کے صدر اور معروف کاریگر غلام نبی ڈار نے کشمیری ہنرمندوں میں بڑھتی بے چینی کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ سینئر کاریگروں کو سہارا دینے کی کمی اور مشینی و ہینڈ لوم قالینوں کی الگ الگ فروخت کو یقینی نہ بنانے سے کشمیری دستکاری کی پہچان مسخ ہو رہی ہے۔