Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
کالممضامین

کرسی کی زنجیر اور اختیارات کا پنجرہ جرسِ ہمالہ

Towseef
Last updated: July 21, 2025 11:31 pm
Towseef
Share
8 Min Read
SHARE

میر شوکت پونچھی(جموں)

جموں و کشمیر میں آج کل سیاست کا منظر کچھ یوں ہے جیسے کسی بادشاہ کو محل تو مل گیا ہو، مگر تخت پر بیٹھنے کی اجازت صرف تصویریں کھنچوانے تک محدود ہو۔دربار ہے،عمامے ہیں،جلوس ہیں،پروٹوکول کی گھنٹیاں بج رہی ہیں، مگر فرمان لکھنے کی روشنائی کہیں ایل جی ہاؤس کی الماری میں قید ہے۔ کہنے کو چیف منسٹر بھی ہیںاور ڈپٹی بھی ،مگر ان کے ہاتھ ایسے بندھے ہیں جیسے کسی ادھورے کٹھ پتلی تماشے میں فنکار کو رسیوں سے باندھ دیا گیا ہو اور پھر تماشائیوں سے کہا گیا ہو،’’دیکھو، یہ ناچتے کیوں نہیں!‘‘جمہوریت کا یہ نیا ماڈل جو یونین ٹیریٹری کی لیبارٹری میں ایجاد ہوا ہے، اس میں وزیر اعلیٰ کو وہ تمام چیزیں دی گئی ہیں جن سے وہ خود کو وزیر اعلیٰ سمجھ سکے۔نایب وزیرِ اعلی خود کو نایب وزیرِ اعلی ہی سمجھے

دفتر، کرسی، فائلیں، فلیگ کار، سلامی، موبائل فون کی ٹون پر بجتا قومی ترانہ ۔بس اگر کچھ نہیں دیا گیا تو وہ’’اختیار‘‘۔ جس سے وہ عوام کی قسمت کے فیصلے کر سکے۔ گویا وہ شوہر جس کے نکاح کے کاغذ تو ہیں مگر بیوی کسی اور کے گھر رہتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جو اقتدار میں ہو، وہ کام کرے۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ہنڈل ہی کسی اور کے ہاتھ میں ہے تو گاڑی کا ڈرائیور کس بنیاد پر ہارن دے؟ گاڑی میں بیٹھ کر اگر کوئی صرف شیشہ صاف کرنے، اے سی کا سوئچ چلانے اور راہگیروں کو ہاتھ ہلانے تک محدود ہو، تو بھلا وہ ڈرائیور کہلائے یا’’سواری اعلیٰ۔‘‘

حالیہ بیانات جن میں حضراتِ عالی جناب چیف منسٹر عمر عبدللہ صاحب اور ڈپٹی چیف منسٹر جناب سریندر چوہدری صاحب نے خود اپنی اختیارات کی عدم موجودگی کا اعتراف کیا، اس حقیقت کا مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں کہ یہ عہدے دراصل ایک ’سیاسی مشقِ خاموشی‘ بن چکے ہیں،ایسا سناٹا جس میں صرف پروٹوکول کی گاڑیوں کے ٹائر گرجتے ہیں۔

جموں کی گلیوں سے لے کر کشمیر کی وادیوں تک عوام کے ذہن میں صرف ایک سوال گونج رہا ہے،’’جنابِ وزیر اعلیٰ! جناب نایب وزیرِ اعلی !آپ کرتے کیا ہیں؟‘‘

اور یہ سوال ایسا ہے جو ہنسی بھی دلاتا ہے اور آنکھیں بھی نم کر دیتا ہے۔ کیونکہ ووٹ دینے والا عام آدمی جب اپنی بیوی کو بتاتا ہے کہ’’میں نے اُنہیں ووٹ دیا تھا جو کام کریں گے‘‘، تو بیوی جواب دیتی ہے،’’اچھا؟ کام وہ کریں گے جن کے ہاتھ بندھے ہیں؟ یا وہ جن کے پاس کڑک سلامی اور گرم چائے کی فائلیں چلتی ہیں؟‘‘

پارلیمان میں قانون بنے، راج بھون میں مہریں لگیں، ایل جی ہاؤس سے احکامات جاری ہوںاور بیچارہ وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ صرف اخبارات کی سرخیاں بناتے پھریں، تو ایسی جمہوریت کو’ ’جمہور‘‘ کہنا ہی جمہوریت کے ساتھ ایک استعارہ بن جاتا ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جب تک ریاستی درجہ بحال نہیں ہوتا، تب تک یہی حال رہے گا۔ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جب تخت ہی عارضی ہو تو اس پر براجمان بادشاہ اور اس کے حواری مستقل مزاج کیسے ہو سکتے ہیں؟ روز نئے حکم، روز نئی پریس کانفرنس، روز نئے بیانات ،مگر ان میں’’کام‘‘ کہیں نہیں۔ بیانات یوں ہوتے ہیں جیسے کرسی پر بیٹھ کر بادشاہ صرف یہی بتا رہا ہو کہ’’مجھے تخت سے اتار کر تخت میں بٹھا دیا گیا ہے۔‘‘

عوام کی حالت اس بیل کی سی ہے جو گھنٹی کے سہارے چلتا ہے، مگر اناج ہمیشہ دوسرے کھیت میں جا گرتا ہے۔ عوام چلا رہے ہیں،’’ارے صاحب! ہمیں سٹیٹ واپس دو!‘‘ اور جواب آتا ہے،’’چپ رہو، ابھی مرکز مصروف ہے، ریاست کا فیصلہ بعد میں ہو گا، فی الحال سیاحتی سیزن چل رہا ہے!‘‘

سیاسی بصیرت رکھنے والے سمجھ چکے ہیں کہ یہ عہدے دراصل’ ’بےاختیار جمالیات‘‘ کا نمونہ ہیں۔ ایک ایسا فنِ خوشنمائی جس میں لیڈر مسکراتا ہے، پر سلام کا جواب دینے کے بعد اس کی فائل ایل جی کے کمرے میں پڑی سسکیاں بھرتی ہے۔

طنز کی بھی ایک حد ہوتی ہے، مگر یہ نظام خود طنز بن چکا ہے۔ عوام کو بتایا جاتا ہے کہ ترقی ہو رہی ہے، گراف اوپر جا رہے ہیں، منصوبے بن رہے ہیںاور ساتھ ہی یہ بھی کہ وزیر اعلیٰ کو ابھی فائل دکھائی نہیں گئی کیونکہ وہ اختیار میں نہیں!تو پھر ہم پوچھتے ہیں کہ’’جناب! آپ کی موجودگی صرف حاضری رجسٹر پر دستخط تک کیوں محدود ہے؟‘‘
ادھر دہلی کے ایوانوں میں سب ٹھیک ہے۔ وہاں قافلے، تقاریر، ملاقاتیں، پرچم اور پریس ریلیز چل رہے ہیں۔ اُدھر جموں و کشمیر میں وزیر اعلیٰ بیٹھ کر سوچ رہا ہے،’’اگر کرسی میری ہے، تو اختیار کہاں ہے؟‘‘ اور وہ اختیار، جیسے چھپ کر کسی سرکاری الماری میں فائلوں کے درمیان بیٹھا کہہ رہا ہ ہو،’’مجھے مت ڈھونڈو، میں مرکز میں ہوں!‘‘
عوام اب اس تماشے کو برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یا تو اس سیاسی ناٹک کو بند کیا جائے یا پھر کرداروں کو ان کے اصل مکالمے دیے جائیں۔ ہم کب تک اُن وزیروں کو سجدہ کرتے رہیں گے جن کے پاس صرف تخت ہے، تختی نہیں؟ وہ وزرا جو اپنی کرسی پر بیٹھ کر اتنا ہی کہہ سکتے ہیں،’’دیکھئے، ہم کچھ نہیں کر سکتے، کیونکہ ہمیں کرنے کا کہا ہی نہیں گیا!‘‘
ایک طرف مہنگائی، بے روزگاری، بجلی، پانی، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، تعلیم کا بگاڑ، صحت کا بستر مرگ—اور دوسری طرف وہ حضرات جو صرف’’صورتحال کا جائزہ‘‘ لیتے ہیں، رپورٹیں مانگتے ہیں، جائزے کی میٹنگ بلاتے ہیں، اور پھر بیان جاری کرتے ہیں کہ’’ہمیں اختیار نہیں!‘‘ایسی جمہوریت کو کیا کہا جائے جس میں اختیار کو ایسے سنبھال کر رکھا گیا ہے جیسے سسرال میں جہیز کی فہرست—کبھی دیا جائے گا، مگر ابھی نہیں۔تو صاحبانِ کرسی! آپ سے گزارش ہے، اگر واقعی آپ کے پاس کچھ کرنے کا اختیار نہیں، تو نہ صرف قوم کے وقت، وسائل اور امیدوں کا احترام کریں بلکہ یہ تسلیم کریں کہ یہ کرسی واقعی ایک ’جنازہ‘ ہے جس پر آپ کے سوا سب رو رہے ہیں۔

بقول شاعر ؎
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے؟
اور اگر اترنا ممکن نہ ہو، تو کم از کم یہ تو کہیے کہ’’ہم تماشہ نہیں، تماشائی ہیں!‘‘
[email protected]>
������������������������������

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کے مطالبے پر کانگریس کا جنتر منتر پر مظاہرہ
برصغیر
ریاستی درجہ بحالی کا مطالبہ :کانگریس نے کبھی بھی تعاون نہیں مانگا:وزیراعلیٰ عمرعبداللہ
برصغیر
لیفٹیننٹ گورنر نے ملی ٹینسی سے متاثرہ خاندانوں کیلئےمخصوص ویب پورٹل کا افتتاح کیا
برصغیر
امرناتھ یاترا: ساڑھے تین ہزار سے زیادہ یاتریوں کا ایک اور قافلہ روانہ
برصغیر

Related

کالممضامین

’’غم نہ کرو، سب ٹھیک ہوگا ‘‘ ٖغور طلب

July 21, 2025
کالممضامین

سکولوں میںلائبریریوں کی بحالی لازمی پُکار

July 21, 2025
کالممضامین

تعلیم کو صرف کاغذ تک محدودنہ رکھیں غورو فکر

July 21, 2025
کالممضامین

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں! جائزہ

July 21, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?