پرویز احمد
سرینگر //سال 2036تک بھارت کی آبادی 152.2کروڑ عبور کرجائے گی اور جنسی تناسب 943سے بڑھ کر952تک پہنچ جائے گا۔ سال 2025میں بھارت میں مردوں کی آبادی 743.39ملین اور خواتین کی آبادی 698.29ملین رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ان اندازوں کے مطابق بھارت میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی آبادی45.08ملین زیادہ ہے۔ جنسی تناسب کے لحاظ سے کیرالا پہلے نمبر پر ہے جہاں یہ تناسب 1084ہے اور دمن اور دیو سب سے نچلے پائیدان پر ہے جہاں جنسی تناسب 618ہے۔ ’ بھارت میں خواتین اور مرد‘ نامی آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ملک میں سال 2036تک خواتین کی آبادی 48.5 فیصدسے بڑھ کر 48.8فیصدہوجائے گی۔جنسی تناسب کے اعتبار سے سال 2011کے اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر کی کل آبادی 1کروڑ 25لاکھ بتائی گئی ہے جن میں 66لاکھ 40ہزار662مرد اور خواتین کی آبادی 59 لاکھ 640 ہے ۔ اس طرح یوٹی میں جنسی تناسب 889بنتا ہے لیکن سپیمپل رجسٹریشن سسٹم کے مطابق جموں و کشمیر میں سال 2018سے 2020کے درمیان جنسی تناسب 921تھا۔ دائمی ترقیاتی مقاصد (ایس ڈی جی)2030کے مطابق جموں و کشمیر میں جنسی تناسب 945ہے۔ قدرتی طور پر جنسی تناسب952ہونا چاہئے لیکن جموں و کشمیر میں سالانہ 921لڑکیوں کاجنم ہوتا ہے ۔جموں و کشمیر میں، پیدائش کے وقت جنسی تناسب (SRB) فی 1,000 مردوں کے مقابلے میں فی الحال 921 خواتین ہے، جو پچھلے سالوں سے معمولی بہتر ہے، لیکن پھر بھی قدرتی معیار اور پائیدار ترقی کے ہدف سے نیچے ہے۔ یہ لڑکیوں کی تعداد کم ہونے کے ایک مستقل مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے، جس میں قدرتی طور پر توقع سے زیادہ سالانہ 3,100 کم لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگرچہ پری کانسیپشن اور پری نیٹل ڈائیگنوسٹک ٹیکنیکس(پی سی پی این ڈی ٹی) ایکٹ جیسے اقدامات اور لاڈلی بیٹی سکیم جیسے اقدامات کا مقصد اس سے نمٹنے کے لیے مزید سخت نفاذ اور عوامی بیداری مہم کی ضرورت ہے۔جموں و کشمیر میں پیدائش کے وقت جنسی تناسب تشویش کا باعث رہا ہے، جس میں فی 1,000 مردوں پر 921 خواتین کا تناسب 952 کے قدرتی معیار سے کم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر 1000 مرد کی پیدائش کے لیے، جموں و کشمیر تقریباً 31 لڑکیوں کو کھو رہا ہے۔ جنس کے تعین اور انتخابی اسقاط حمل روکنے کے لیے ایکٹ موجود ہے، لیکن اس کے نفاذ کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔یک طرفہ جنسی تناسب خطے میں لڑکیوں اور خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے اہم مضمرات رکھتا ہے۔ یہ لڑکیوں کی زندگیوں کے تحفظ میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کی تاثیر کے بارے میں بھی سوالات اٹھاتا ہے، خاص طور پر قبل از پیدائش اور ابتدائی بچپن کے مراحل میں۔حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مختلف سکیمیں اور پروگرام نافذ کیے ہیں، جن میں لاڈلی بیٹی سکیم، جو لڑکیوں کے لیے مالی امداد فراہم کرتی ہے، اور جنانی-شیشو تحفظ کاریکرم (JSSK)، جو حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے لیے مفت صحت کی خدمات فراہم کرتی ہے۔جموں و کشمیر میں گرتے ہوئے جنسی تناسب سے نمٹنے کے لیے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں موجودہ قوانین کا سخت نفاذ، صنفی امتیاز سے نمٹنے کے لیے عوامی بیداری مہم میں اضافہ، اور لڑکیوں اور خواتین کے لیے معیاری صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک بہتر رسائی شامل ہے۔اعداد و شمار جمع کرنے والے رجسٹریشن سسٹم کے مطابق جموں و کشمیر میں جنسی تناسب بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے۔ ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں سال 2021میں تناسب کم ہوکر 957تک پہنچ گیا جبکہ یہ سال 2020میں 984تک پہنچ گیا تھا ۔ سال 2019میں جنسی تناسب بڑھ کر 965تک پہنچ گیا تھا جو سال 2018میں 953تھا۔ ٹیکنیکل گروپ آف پاپولیشن پروجیکٹس کی رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میںسال 2011سے لیکر سال 2036تک سالانہ 2لاکھ بچے ہونے ہیں جن میں سے ایک لاکھ لڑکے اور ایک لاکھ لڑکیاں ہونے چاہئے۔ گروپ کی رپورٹ پر یقین کریں تو جموں و کشمیر میں سالانہ 3100لڑکیوں کی کمی ہورہی ہے اور یہ شاید نجی پریکٹس کی وجہ سے ہورہا ہے۔ محکمہ فیملی ویلفیئر کی سالانہ رپورٹ 2024-25کے دوران جموں و کشمیر جنسی تناسب کو ختم کرنے کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔