جیمز گیلیگر
تین افراد کے جینیاتی مواد کے ذریعے آٹھ بچوں کی پیدائش عمل میں لائی گئی ہے تاکہ بچوں میں جان لیوا اور مہلک عارضوں کا خطرہ کم کیا جا سکے ۔اس بات کا انکشاف برطانوی ڈاکٹروں نے کیا ہے۔برطانوی سائنسدانوں کی جانب سے ایجاد کئے گئے اس طریقے کے تحت ایک عورت اور مرد کے ایگز (انڈے) اور سپرم (نطفے) کا ملاپ کیا جاتا ہے جبکہ دوسرا انڈہ ایک اور خاتون سے لیا جاتا ہے۔اگرچہ اس تکنیک کے تحت بچوں کی پیدائش برطانیہ میں گذشتہ ایک دہائی سے قانونی ہے تاہم اب ہمارے پاس اس بات کا پہلا ثبوت آ گیا ہے کہ اس کے باعث بچے مہلک اور لاعلاج بیماری، یعنی مائٹوکانڈریئل سے پاک پیدا ہوتے ہیں۔یہ عارضہ عام طور پر ماں سے بچے میں منتقل ہوتا ہے اور اس کے باعث بچوں کے جسم میں توانائی ختم ہو جاتی ہے جو شدید نوعیت کی معذوری کا سبب بن سکتی ہے اور کچھ بچے تو پیدائش کے چند روز بعد ہی وفات پا جاتے ہیں۔ جوڑوں کو عام طور پر اس بات کا علم اس لیے ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے قبل اُن کی اولاد، خاندان کے افراد یا ماں اس بیماری سے متاثر ہوئی ہوں۔جو بچے اس تکنیک سے پیدا ہوتے ہیں ان کے ڈی این اے کا زیادہ تر حصہ اپنے والدین کے جینیاتی بلوپرنٹ پر جاتا ہے لیکن دوسری خاتون کا بھی اس میں 0.1 فیصد حصہ ہوتا ہے۔ یہ تبدیلی کئی نسلوں تک منتقل ہوتی ہے۔جتنے بھی خاندان اس مرحلے سے گزرے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس بارے میں عوامی طور پر بات نہیں کر رہا ہے تاکہ اپنی شناخت مخفی رکھ سکیں۔
مائٹوکانڈریا، دراصل ایک ننھا ڈھانچہ ہے جو ہم سب کے ہی خلیوں میں موجود ہوتا ہے۔ ان کی وجہ سے ہی ہم سانس لیتے ہیں کیونکہ یہ آکسیجن کو استعمال کر کے کھانے کو توانائی میں بدل دیتا ہے جو ہمارا جسم بطور ایندھن استعمال کرتا ہے۔اگر مائٹوکانڈریا میں نقص ہو تو اس سے جسم میں اتنی کم توانائی بھی رہ سکتی ہے کہ دل دھڑکنا ہی بند ہو جائے، دماغ کو نقصان پہنچے، دورے پڑیں، قوتِ بصارت سے محروم ہوجائے، پٹھوں کی کمزوری کا باعث بنے اور اعضا کام کرنا چھوڑ جائیں۔ہر پانچ ہزار میں سے ایک بچہ مائٹوکانڈریا کی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ کچھ والدین کو ان بیماریوں کے باعث اولاد کی وفات کا غم جھیلنا پڑا۔مائٹوکانڈریا ماں سے بچے میں منتقل ہوتا ہے۔ اس لیے اس تکنیک کے تحت والدین کے علاوہ ایک دوسری خاتون صحتمند مائٹوکانڈریا عطیہ کرتی ہیں۔یہ تکنیک ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ قبل نیو کاسل یونیورسٹی، ٹائن ہسپتال کی این ایچ ایس فاؤنڈیشن اور این ایچ ایس میں ہی ایک سپیشلسٹ محکمے کے اشتراک سے بنائی گئی تھی۔عطیہ کرنے والی خاتون اور ماں کے انڈے اور باپ کے سپرم کو لیب میں فرٹیلائز کیا جاتا ہے۔جنین ( ایمبریو) اس وقت تک فروغ پاتے ہیں جب تک سپرم سے ڈی این اے اور انڈہ ڈھانچوں کی جوڑی نہ بنا لیں، جسے پرونیوکلی آئی کہتے ہیں۔ یہ دراصل ایک انسانی جسم کی تعمیر کا بلیوپرنٹ ہوتا ہے جن میں بالوں کا رنگ اور قد شامل ہوتے ہیں۔پرونیوکلی آئی کو پھر دونوں ایمبریوز سے نکالا جاتا ہے اور والدین کے ڈی این اے کو اس ایمبریو میں داخل کیا جاتا ہے جس میں صحت مند مائٹوکانڈریا ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں ہونے والا بچہ جینیاتی طور پر والدین کا ہوتا ہے لیکن یہ مائٹوکانڈریئل بیماری سے پاک ہوتا ہے۔
ایک اور اہم سوال جو اس تکنیک کے بارے میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ آیا اس کے نتیجے میں ناقص مائٹوکانڈریا صحت مند ایمبریو سے تو نہیں مل جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ پانچ کیسز میں ناقص یا بیماری زدہ مائٹوکانڈریا کی نشاندہی نہیں ہو سکی۔ دیگر تین کیسز میں پانچ فیصد اور 20 فیصد کے بیچ مائٹوکانڈریا پیشاب اور خون کے نمونوں میں ناقص تھے۔یہ اس 80 فیصد کی سطح سے کم ہے جس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ کے نتیجے میں بیماری ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہو گی تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ ایسا کیوں ہوا اور کیا اسے روکا جا سکتا ہے یا نہیں۔نیوکاسل یونیورسٹی اور موناش یونیورسٹی میں پروفیسر میری ہربرٹ کا کہنا ہے کہ ’ان نتائج کے باعث امید پیدا ہوئی ہے۔ تاہم مائٹوکانڈریا عطیہ کرنے کی ٹیکنالوجی کی حدود کو سمجھنے کے لیے تحقیق کی ضرورت ہو گی تاکہ اس علاج کو بہتر بنایا جا سکے۔کئی دہائیوں کی تحقیق کے باوجود ابھی تک مائٹوکانڈریئل بیماریوں کا کوئی علاج نہیں ہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے استعمال ہونے والی یہ تکنیک امید کا باعث ہے۔
برطانیہ نے نہ صرف یہ تکنیک دریافت کی بلکہ یہ دنیا کا وہ پہلا ملک بھی بن گیا ہے جس نے سنہ 2015 میں پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے بعد بچوں کی اس نوعیت کی پیدائش کو قانونی حیثیت دینے کے لیے قوانین متعارف کروائے تھے۔اس کا مطلب ہے کہ اس تکنیک کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو ڈی این اے اپنے والدین سے اور تقریباً 0.1 فیصد ڈونر عورت سے وراثت میں ملتا ہے۔کیونکہ اس تکنیک کے ذریعے پیدا ہونے والی لڑکیاں یہ جینیاتی پیٹرن اپنے بچوں میں منتقل کریں گی، اس لیے یہ انسانی جینیاتی وراثت میں مستقل تبدیلی ہے۔جب ٹیکنالوجی پر بحث ہوئی تو یہ کچھ لوگوں کے لیے بہت متنازع بات تھی۔ انھیں خدشہ یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ’ڈیزائنر‘ بچے پیدا ہونے لگیں گے۔نیو کاسل یونیورسٹی کے پروفیسر سر ڈوگ ٹرن بل کے مطابق دنیا میں یہ واحد جگہ ہے جہاں ایسا ہو سکتا تھا، ہمیں یہاں تک پہنچنے کے لیے بہترین سائنس کی مدد لینی پڑی ہے، اسے علاج کے طور پر اپنانے کے لیے قانون سازی کرنی پڑی ہے، این ایچ ایس کی مدد موجود تھی اور اور اب ہمارے پاس آٹھ ایسے بچے ہیں جو مائٹوکانڈریئل بیماری سے پاک معلوم ہوتے ہیں، یہ ایک حیرت انگیز نتیجہ ہے۔(بی بی سی)