پرویز مانوس
شادی سے پہلے زندگی کیا ہوتی ہے؟ اس کا لُطف کیسے اُٹھاتے ہیں، اگر آپ ہم سے پوچھیں گے تو ہم فوراً کہیں گے کہ یہ خواب جیسی ہوتی ہے۔ہم بھی کبھی زندہ دل کہلاتے تھے، ہماری زندگی گلشن میں آئی ہوئی کسی بہار سے کم نہ تھی، صبح گھر سے نکلنا اور شام گئے تک دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا، لٹر مستی کرنا، ریستورانوں میں مزے دار کھانے کھانا، اور رات گئے تک موج مستی کرنے میں گزرتی تھی۔
کئی کئی روز دوستوں کے ساتھ رات دیر تک بیٹھکیں ہوتی تھیں، جہاں قہقہے گونجتے تھے اور زندگی کی ہر چھوٹی خوشی کو منانے کے بہانے ڈھونڈ تے رہنا، ہم سمجھتے تھے کہ زندگی کا مقصد خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا ہے۔ لیکن ایک دن ہماری زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جس نے ہماری خوشیوں کے گلستان کو قبرستان میں بدل دیا – خوشیوں کا یہ ایک بھیانک موڑ تھا جسے عام لوگ “شادی کہتے ہیں ” جس کے لئے ہم آج تک ٹال مٹول کرتے رہے تھے لیکن “بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی- نہ نہ کرتے بھی اونٹ پہاڑ کے نیچے آہی گیا پہاڑ بھی ایسا جس کے نیچے سے بڑے بڑے تیس مارخاں بھی ہل نہیں سکتے-
شادی کے بعد جیسے ہی زندگی کا پہلا دن شروع ہوا، ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم اپنی “خودمختاری” کو ہمیشہ کے لئےالوداع کہہ چکیں ہیں ۔ صبح کے ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک، ہر بات میں بیوی کا عمل دخل شروع ہو گیا۔ پہلے ہم دوستوں کے ساتھ پلان بناتےتھے لیکن اب پلان کچھ یوں بننے لگے:
افس سے آنے میں اتنا وقت کیو لگا ؟”
آپ اتنی دیر کہاں تھے؟ ”
“سبزی وقت پر کیوں نہیں لائے؟”
“آپ نے موبائل کیوں بند رکھا تھا؟”
اب ہمیں اپنی ہر حرکت کا حساب دینا پڑتا۔ ہم خود کو ایک ایسا قیدی محسوس کرنے لگےجس کا جیلر ہماری بیوی تھی۔ لیکن بات صرف یہی تک محدود نہیں تھی۔
دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا تو دور کی بات، اُن کے فون کالز تک کا جواب دینا مشکل ہو گیا تھا۔ ایک دن ایک دوست نے کہا، “یار، تو اتنا بدل گیا ہے کہ ہماری کالز کا جواب بھی نہیں دیتا۔” ہم نے جواب میں کہا، “بھائی، جواب دینے کے لیے بھی بیوی سے اجازت لینی پڑتی ہے۔”
کیا؟؟؟؟ تمہاری بیوی ہے کہ ہٹلر؟
اب تو دوستوں نے فون کرنے بھی کم کردئے تھے-
ہم جو کبھی ہوٹلوں میں مختلف قسم کے مزیدار کھانے کھایا کرتے تھے، اب بیوی کے ہاتھ کے پکے کھانے پراکتفا کرنا پڑتا تھا – بیوی کے کھانے کے بارے میں ہم بس اتنا جانتے تھے “صحت مند تو ہے، لیکن ذائقہ کہاں ہے؟” ہم اپنی پرانی زندگی کو یاد کرتے اور دل ہی دل میں دعا کرتےکہ کبھی تو ایسا موقع آئے جب بیوی مائکے چلی جائے اور ہم اپنے دوستوں کے ساتھ دوبارہ ہنسی خوشی وقت گزار موج مستی کرسکیں -اس دوران وہ ایک بار بھی مائیکے نہیں گئی شاید اُسے مائیکے والے برداشت ہی نہیں کرتے تھے، جب اُن کو اپنی لاڈلی بیٹی کی یادبآتی تو وہ خود ہی اُس سے ملنے چلے آتے- دو چار دن میں ہی سسرال والے ہمارا دیوالہ نکال جاتے اس طرح ہم دو باٹوں میں پس رہے تھے اور ہمارے لبوں پر بے ساختہ یہ اشعار مچل جاتے-
جب سے ہوئی ہے شادی ، آنسو بہا رہا ہوں
آفت گلے پڑے ہے ، اس کو نبھا رہا ہوں
سوئی ہے وہ پلنگ پہ ، سر درد کے بہانے
کس کی مجال ہے ، جو جائے اسے اٹھانے
یارو برا نہ مانو، میں سر دبا رہا ہوں
آفت گلے پڑی ہے اس کو نبھا رہا ہوں
دنیا کو یہ پتا ہے ، بیگم کا ہوں میں شوہر
جس گھر کا تھا میں مالک ، اب بن گیا ہوں نوکر
بستر لگا رہا ہوں ، چادر بچھا رہا ہوں
آفت گلے پڑی ہے ، اس کو نبھا رہا ہوں
ہم نے سُن رکھا تھا کہ خدا مظلوم کی آہ ضرور سُنتا ہے -اس لئے ہم جب بھی نماز ادا کرتے تو ہمیشہ یہی دعا مانگتے کہ اے میرے پروردگار جس طرح تو نے اس آفت کو مجھ ناتواں پر نازل کیا ہے اسی طرح اسے مائکے بلاکر مجھ معصوم پر سے ٹال دے –
کئی روز بعد ہمیں ایسا لگا کہ دعاؤں میں اثر ضرور ہوتا ہے، کیونکہ ایک دن وہ لمحہ آ گیا جس کا ہم کئی روز سے انتظار کر رہے تھے- ایک دن بیگم رسوئی میں کھانا بنانے میں مصروف تھی کہ اُس کے فون کی گھنٹی بج اُٹھی –
دمذرا دیکھو کون ہے اُس نے ہم سے مخاطب ہوکر کہا-
ہم نے موبائل پر نظر ڈالی اور کہا” کوئی ان نون نمبر ہے –
اچھا ٹھیک ہے میں خود دیکھتی ہو کہہ کر اُس نے کال ریسیو کی، اس دوران ہم بیگم کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ کر عجیب سی کیفیت محسوس کررہے تھے –
کس کا فون ہے؟ ہم نے بیگم سے دریافت کیا تو اُس کی چیخ نلک گئی، ماں کا انتقال ہو گیا ہے۔
کیا؟؟؟؟؟ ہم نے حیرانی سے کہا-
ہاں پڑوسی نے فون پر بتایا کہ ماں کا انتقال ہوگیا ہے، یہ خبر سنتے ہی بیگم نے فوراً اپنا تھوڑا سا سامان باندھنا شروع کر دیا۔ اور مجھ مخاطب ہوکر کہا-
“میں مائکے جا رہی ہوں۔ بچے اسکول سے آ جائیں تو اُنہیں لے کر تم بھی آ جانا۔”
ہم نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا” بیگم صبر کرو، یہ سب خدا کی مرضی سے ہوا ہے، یہ دنیا فانی ہے سب کو ایک دن اپنی اصل کی طرف لوٹ جانا ہے –
وہ تو ٹھیک ہے لیکن ابھی اماں کی عمر ہی کیا تھی -یہ سُنتے ہی ہم نے کہا” تم بالکل درست کہہ رہی ہو بیاسی برس بھی بھلا کوئی عمر ہوتی ہے ہم سمجھتے تھے کم از کم سینچری تو ضرور کریں گے خیر۔۔۔۔۔اوپر والے کے آگے کسی کی چلی ہے -جلدی کرو کہیں گاڑی نہ چھوٹ جائے کہہ کر ہم نے اُس کا سامان ایک آٹو رکشا میں رکھا اور پھر دور تک آٹو رکشا کو جاتے ہوئے دیکھتے رہے –
اب ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ دونوں ہاتھ آسمان کی جانب اُٹھا کر کہا”واقعی تو رحیم و کریم ہے تیرا لالھ لالھ شکر ہے کہ تو نے مجھ معصوم پر سے اس قیامت کو ٹلا –
پھر ہم نے فوراً اپنے پرانے دوستوں کو فون کیا:
ہیلو….! آج بڑی خوشی کا دن ہے، میری بیوی مائکے چلی گئی ہے ۔ آج ہم وہی پرانے دن یاد کریں گے!”خوب موج مستی کریں گے، تم ایک کام کرو، اپنے تمام پُرانے دوستوں کو بھی دعوت دے دو تب تک میں دعوت کا بندوبست کرتا ہوں –
ہم نے نہ صرف دوستوں کو مدعو کیا، بلکہ ریستوران سے خاص پکوان کے آرڈز بھی دے دئے، اسکول سے آنے کے بعد بچوں کو ہمسایوں کے گھر کھیلنے بھیج دیا تاکہ وہ اپنی موج مستی کے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ماں کی موجودگی میں تو وہ بیچارے اسکول سے آکر گھر سے باہر بھی نکلتے تھے آج تو جیسے اُن کے ہاتھ خوشیوں کا خزانہ لگ گیا تھا، ادھر ہم اپنی خوشیوں کے دوبارہ لوٹنے کا جشن منانے کے لیے تیار تھا۔
لیکن یہ خوشیاں مختصر ثابت ہوئیں۔ ابھی ہم اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری کر ہی رہےتھے کہ اچانک دروازے پر بیل بجی۔ ہم نے سوچا کہ شاید دوست وقت سے پہلے پہنچ گئے ہیں۔ لیکن جب دروازہ کھولا تو سامنے بیگم کو دیکھ کر ہمارے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
“بیگم، تم واپس کیوں آ گئیں؟”
ہم تو بچوں کو لے کر آنے ہی والے تھے –
رہنے دیجئے اب اس کی ضرورت نہیں –
کیوں ماں کا مرنا کینسل ہوگیا کیا؟
بیگم نے غصے سے کہا-
“کسی بدبخت نے جھوٹا فون کیا کہ ماں کا انتقال ہو گیا ہے۔ اگر مجھے اُس شخص کا پتہ چل جائے تو میں اُسے کچا چبا جاؤں!”
یہ سنتے ہی ہمارے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ ہمارے ذہن میں فوراً اُس دوست کا چہرہ آ گیا جسے ہم نے بیگم کو فون کرنے کے لیے کہا تھا۔ ہم سوچنے لگے-
“اب اگر بیگم کو حقیقت پتہ چل گئی تو ہماری خیر نہیں!”
اس طرح ہمارا یہ خواب حقیقت میں بدلنے سے پہلے ہی ایک ڈراؤنا خواب بن گیا۔ اور ہماری خوشیوں پر دوبارہ آفت کا سایہ منڈلانے لگا ہم سمجھ گئے کہ مذاق کبھی کبھار بہت مہنگا پڑ سکتا ہے ہم نے سُن رکھا تھا کہ آفاتِ سماوی آتی رہتی ہیں سو پھر ایک مرتبہ آگئی ِ
���
آزاد بستی،نٹی پورہ سرینگر،کشمیر، موبائل نمبر؛9419463497