سبدر شبیر
شہر کے بل بورڈز پر اُس کی مسکراہٹیں بکھری تھیں، ہر طرف وہی نام، وہی چہرہ، وہی انداز۔ آمنہ ملک کی سب سے مشہور ماڈلز میں شمار کی جاتی تھی۔ اس کی تصویریں، ویڈیوز، ریمپ واکس، اشتہارات، ہر جگہ موجود تھیں۔ لوگ اس کے انداز کو فالو کرتے، اس کے فیشن کو نقل کرتے، اس کی باتوں کو حرزِ جاں بناتے۔ وہ سوشل میڈیا کی وہ ملکہ تھی جس کی تخت نشینی کو کوئی چیلنج نہ تھا۔ لیکن جو سب کے لیے چمکتی ہوئی کہکشاں تھی، وہ خود اپنے اندر ایک خاموش، سنسان رات تھی۔ وہ جو سب کو روشنی دیتی تھی، خود اندھیرے کی مسافر تھی۔
رات کے پچھلے پہر جب شہرت سونے چلی جاتی ہے اور صرف تنہائی جاگتی ہے، آمنہ کھڑکی کے سامنے کھڑی ہو جاتی۔ باہر شہر کی روشنیوں کا شور تھا اور اندر اس کے سینے میں ایک سوال گونجتا: “کیا یہ سب میں ہوں؟ یا یہ سب میں نے صرف دکھانے کے لیے اوڑھ رکھا ہے؟” آئینے کے سامنے کھڑی وہ لڑکی جو ہر میگزین کا کوّر بن چکی تھی، آج خود سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔ شہرت کی چمک میں جو کچھ دکھائی دیتا تھا، وہ اس کا حقیقی عکس نہ تھا۔ اس کی ساری تصویریں، ساری اداکاری، سارے لباس… صرف ایک قیمت تھی جو اس نے چکائی تھی۔ مشہور ہونے کے لئے بے پردہ ہونا پڑتا ہے ـ اس کے ایجنٹ نے اسے یہی کہا تھا اور اس نے مان لیا تھا۔
شروع میں صرف اسٹائل تھا، پھر لباس مختصر ہوا، پھر نظریات بدلے اور پھر وہ خود بھی بدل گئی۔ جس حیا، کو وہ کبھی خزانہ سمجھتی تھی، وہی اس کے راستے کی رکاوٹ قرار پائی۔ اور اب جب وہ سب کچھ پا چکی تھی تو اُس کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں تھا۔ صرف ایک خالی پن، جو دن کے ہجوم میں چھپ جاتا، مگر رات کی خامشی میں چیخنے لگتا۔
ایک دن، پرانی دوست عائشہ اس سے ملنے آئی۔ سادہ لباس، پر نور چہرہ، آنکھوں میں عجیب سا اطمینان۔ آمنہ نے اسے دیکھا اور کہا، “تم پر سکون لگتی ہو۔ تم نے تو کچھ نہیں کمایا، نہ شہرت، نہ پیسہ، نہ مقام… پھر بھی تم جیت گئی ہو۔” عائشہ نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما اور کہا، “تم نے سب کچھ پا لیا، مگر خود کو کھو دیا۔ میں نے کچھ نہیں پایا، مگر خود کو بچا لیا۔ یہی اصل کامیابی ہے۔”
عائشہ نے اسے ایک دن اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ وہ اسے ایک خانقاہ میں لے گئی، شہر سے دور ایک خاموش مقام پر۔ وہاں ایک بزرگ تشریف فرما تھے، جن کی آنکھوں میں وہ روشنی تھی جو نہ کیمروں سے آتی ہے، نہ مصنوعی لائٹس سے۔ آمنہ نے ان کے قدموں میں بیٹھ کر کہا، “میں وہ ہوں جسے دنیا جانتی ہے، چاہتی ہے، فالو کرتی ہے۔ مگر میں خود نہیں جانتی کہ میں کون ہوں۔ میں دنوں میں مشہور ہوئی، لیکن ہر رات خود سے خوفزدہ ہوتی ہوں۔”
بزرگ نے کہا، “جب انسان اپنی اصل چھوڑ دیتا ہے، تو چاہے وہ دنیا بھر کی نظروں میں آ جائے، رب کی نگاہ میں اجنبی ہو جاتا ہے۔ تم نے روشنی کو خریدا، مگر وہ روشنی تمہارے اندر اندھیرا لے آئی۔ پردہ صرف لباس کا نہیں ہوتا، روح کا بھی ہوتا ہے اور جو روح سے بے پردہ ہو جائے، وہ سب کے لئے دلچسپ ہو سکتی ہے، لیکن اپنے رب کے لیے قیمتی نہیں رہتی۔”
آمنہ خاموشی سے رو رہی تھی۔ ان آنسوؤں میں وہ دکھ تھا جو مشہور ہونے کے شوق میں اس نے خود پر مسلط کیا تھا۔ وہ روشنی، جسے سب کامیابی سمجھتے تھے، اب اسے ایک قید لگ رہی تھی۔ بزرگ نے کہا، “لوٹ آؤ۔ یہ دنیا آنکھوں کو خوش کرتی ہے، دل کو نہیں۔ تم نے جسم دکھا کر عزت مانگی، اب روح چھپا کر عزت پا لو۔ لوگ تمہیں بھول جائیں گے، مگر تم خود کو پا لو گی۔”
اس دن کے بعد، آمنہ نے وہ راستہ چنا جو بظاہر اندھیرا تھا، لیکن اندر سے روشن۔ اس نے سوشل میڈیا کے تمام اکاؤنٹس بند کر دیئے۔ شوٹس، برانڈز، اور اشتہارات سے ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ شہرت جو لاکھوں کی حسرت تھی، اب اس کے لئے ایک بوجھ تھی جسے وہ اتار چکی تھی۔ اب وہ مسجد کے قریب ایک چھوٹے مدرسے میں بچیوں کو فنِ تقریر سکھاتی تھی۔ سادہ لباس، باوقار حجاب اور چہرے پر وہ سکون جو کیمروں میں نہیں، عبادت میں ملتا ہے۔
ایک دن ایک چھوٹی بچی نے پوچھا، “آپی، آپ تو اتنی خوبصورت ہیں، آپ مشہور کیوں نہیں ہوتیں؟”
آمنہ نے نرمی سے مسکرا کر کہا، “کیونکہ اب میں اُس جگہ مشہور ہوں جہاں دکھاوا نہیں، خلوص دیکھا جاتا ہے۔ جہاں پردہ عزت بن جاتا ہے اور خاموشی عبادت۔ میں اب لوگوں کی نگاہ میں نہیں، رب کی رضا میں جیتی ہوں۔”
کئی دن بعد، ایک صحافی اس تک پہنچا۔ کیمرا لایا، مائیک سامنے کیا اور بولا، “ہم آپ کی کہانی سنانا چاہتے ہیں، آپ کی واپسی ایک بڑی خبر ہو سکتی ہے۔”
آمنہ نے نظریں جھکائیں اور صرف اتنا کہا، “میں واپس آ چکی ہوں… خود کی طرف، رب کی طرف۔ یہ خبر نہیں، نجات ہے۔”
اور وہ چلی گئی۔ روشنیوں کی دنیا سے تاریکیوں کے سفر پر، لیکن اس تاریکی میں جو سکون تھا، وہ کیمروں کی چمک میں کبھی نہ تھا۔
���
اوٹو اہربل کولگام ،کشمیر،[email protected]