ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
گھر کے تمام افراد رات کو سونے کیلئے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے ۔
گھر یلو نو کر پاشا بھی اپنا کام ختم کرنے کے بعد سونے کو جاہی رہا تھا کہ اس نے زور زور سے دروازہ پیٹنے کی آواز سنی۔
وہ جلدی جلدی دروازہ کھولنے گیا ۔ کیا دیکھتا ہے کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ،سردی سے ٹھٹھرتا ہوا دس بارہ سال کا لڑکا اندر آنے کے لئے ملتجیانہ انداز میں کھڑا تھا ۔
’’ہاں! کیا بات ہے ؟‘‘ پاشا نے لڑکے سے پوچھا ۔
’’جی جی جی‘‘ سردی سے کانپتے ہوئے لڑکے نے کہا
’’میں اندر آنا چاہتا ہوںمیرا کوئی گھر نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں؟ تم کون ہو؟‘‘۔
جی جی جی ، میں شہر کے ناری نیکتن میں اپنی ماں کے ساتھ رہتاتھا ۔ ماں کچھ دن پہلے چل بسی تو ناری نیکتن والوں نے آج شام مجھے وہاں سے نکال دیا ۔ میں چلتے چلتے بارش میں بھیگتا ہوا بس یہاں تک پہنچا۔
میرا کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔یہ بڑا گھر دیکھا اسی لئے ادھر چلاآیا۔
’’تمہارا کیا نام ہے؟ ‘‘پاشا نے اس سے پوچھا ۔
’’جی جی ! میرا نام کنول ہے ۔ مگر ماں مجھے رامو کہتی تھی۔
پاشا اس کو اندر لے آیا، کھانا کھلایا اور اپنے ساتھ ہی رات کو سلایا۔
صبح پاشا رامو کو لے کر سیٹھ صاحب کے پاس گیااور بتایا ۔
’’جی! سیٹھ صاحب یہی وہ لڑکا رامو ہے جو رات کو آیا تھا۔‘‘
’’ہاں! رامو کہاں کے ہو ۔ یہاں کیسے آئے ؟‘‘سیٹھ صاحب نے پوچھا ۔
’’جی، میں اپنی ماں کے ساتھ ناری نیکتن میں رہتا تھا ۔ کچھ دن پہلے وہ چل بسی اور پھر کل ناری نیکتن والوں نے مجھے وہاں سے نکال دیا۔ مجھے اپنے گھر کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ کہاں جاتا۔‘‘ رامو نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
یہ سن کر سیٹھ صاحب نے کہا۔’’ یہاں رہو گے؟ یہاںپاشا کے ساتھ رہ کر کام کرو۔ یہاں کھانا پینا، کپڑا سب کچھ ملے گا ۔‘‘
’’جی! جناب! جیسا آپ کہیں گے۔‘‘ رامو نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔
سٹیھ صاحب کے والد بہت بڑے زمیندار تھے ۔ ان کی زمینیں آس پاس کے دیہاتوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ جن کی دیکھ بھال کے لئے انہوں نے کئی کام کرنے والے رکھے تھے۔
گھریلو کام کاج کے لئے کرشن چند اور گلابی میاں بیوی تھے۔ جو اس خاندان کے لئے وفادار ایماندار تابعدار کارندے تھے۔
سیٹھ صاحب کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا انہوں نے وکرم نام رکھاتھا۔
سب لوگ اس کو چھوٹے صاحب کہتے تھے ۔
جب حالات نے کچھ پلٹا کھایا اورگھریلو حالات دگرگوں ہوگئے تو سیٹھ صاحب کی بیوی نے سارے ملازموں کی یکے بعد دیگرے چھٹی کردی۔ کرشن اورگلابی دو تین ماہ کے وقفے کے اندر اندر فکر وپریشانی اور بیماریوں کی وجہ سے اس دنیا سے چل بسے ۔
ان کی ایک لڑکی شانو تھی جس کو سیٹھ کی بیوی نے اپنی خدمت کے لئے رکھا تھا۔
کیونکہ وہ وفادار اورپرانے ملازموں کی بیٹی تھی جو گھر کے کام کاج سے پوری طرح واقف تھی اوراس کا کوئی ٹھکانہ بھی اس گھر کے علاوہ نہ تھا۔
شانو وکرم سے پانچ چھ سال بڑی تھی مگر لگتاتھا کہ وہ دونوں ہم عمر ہیں۔
شانو کی طبیعت میں ٹھہراؤ اورسنجیدگی تھی۔ وہ سیٹھانی کے علاوہ وکرم کا بھی پورا پورا خیال رکھتی تھی ۔ جب وکرم پڑھائی اور ٹیوشن سے فارغ ہوتا تو شانو کچھ دیر اس کے ساتھ کھیلتی بھی تھی۔ شانو اب ایک خوبصورت دوشیزہ کا روپ اختیار کرچکی تھی۔ وہ دونوں اب کھلونوں کو چھوڑ کر ایک دوسرے سے کھیلتے تھے ۔ پھر ایک دن دونوں کی طبیعت میں طوفان آیا اور پھر وہی کچھ ہواجس کا ڈرہوتا ہے۔
جب اس انہونیdevelopement کا وکرم کی ماں سیٹھانی کو پتہ چلا تو اس نے اپنے قابل اعتماد اور بھروسہ مند منیم کو پوری کہانی اوراس کے مضرات سمجھا کر کہاکہ وہ شانو کو مقامی ناری نیکتن کے ذمہ داروں کے حوالے کردے ۔
حویلی سے نکلتے ہوئے منیم نے مالکن کے کہنے کے مطابق اپنی ساس ماں کا دیا ہوامنگل سوتر بھی دیا تاکہ ناری نیکتن والے شانو کو بے سہارا اور بیوہ سمجھیں۔
کچھ دنوں تک تو حویلی میں شانو کی غیر حاضری کے چرچے ہوئے مگر وقت گذرنے کے ساتھ یہ بات بھی ختم ہو گئی۔
ناری نیکتن میں دو تین ماہ بعد شانو کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ۔
وہ اب ناری نیکتن میں ایک کٹی پتنگ کی طرح دن گذار رہی تھی۔ اس کو وکرم کی جدائی ستانی تھی ۔ لڑکے کی پیدائش کے بعد ناری نیکتن والوں نے بیٹے کو کنول کا نام دیا ۔
جب ناری نیکتن والوں نے کنول کو مقامی سکول میں KG میں داخلہ کے لئے بھیجا تو وہاں فارم پرُ کرتے وقت کنول ا پنے باپ کا نام نہ بتا سکا ۔ استاد نے دوسرے روز باپ کانام پتہ کرکے آنے کو کہا جب ماں سے بار بار پوچھنے کے بعد باپ کا نام نہ مل سکا ۔ پھر وہ کبھی سکول نہ گیا۔
اس کی ماں نے ٹال مٹول کرکے نام نہ بتایا ۔
نتیجتاً وہ سکول میں داخلہ نہ لے سکا۔ وہ لگاتار ماں سے اپنے پتا کانام پوچھتا رہتا اور وہ بھی لگاتار ٹال مٹول کرتی رہتی۔
کروا چوتھ کے تہوار کے دن وہ چونکہ فاقے سے تھی اور کچھ بیمار بھی تھی ،نڈھال ناری نیکیتن کی سیڑھیوں سے گر گئی۔ اس کو سرپہ شدید چوٹ آئی۔ اسے ہسپتالShiftکیا گیا ۔ اس کی حالت کوڈاکٹروں نے نازک بتایا ۔ پھر وہ اسی سر کی چوٹ سے اس دنیا سے چل بسی۔ مرنے سے قبل اس نے کنول کو اپنے قریب بلایا اور کہا کہ میرامرنااب یقینی ہے ۔ ناری نیکتن والے اب تجھے یہاں نہیں رکھ سکیں گے ۔
یہاں سے نکالے جانے کے بعد آپ فلاں جگہ حویلی میں چلے جانا۔ وہاں حویلی کے مالک کا نام وکرم ہے ۔
بیٹے! ناری نیکتن میں آنے سے پہلے میں اپنے ماں باپ کے ساتھ اسی کوٹھی میں رہتی تھی۔ جب وہ دونوں چل بسے میں اکیلی رہ گئی۔ میں اس کوٹھی میں کئی سال رہی بالکل ایک نوکر انی کی طرح ۔
پھر یہاں اس ناری نیکتن میں آگئی تو یہاں پر ہی تُو پیدا ہوا۔
تم یہاں سے چلے جانے کے بعد کوٹھی کے مالک وکرم سے کسی طرح ملنا وہی تمہارے پتا جی ہیں۔
وہاں تمہاری اس بات کا کوئی یقین نہیں کرے گا۔
تم یہ منگل سوتر اور انگوٹھی دکھا دینا ۔
یہاں ناری نیکتن میں آتے وقت منیم نے مجھے دی تھی۔
منگل سوتر اس لئے دیاتھاکہ ناری نیکیتن والے مجھے شادی شدہ اور بیوہ سمجھیں اور یہ انگوٹھی وکرم نے مجھے دی تھی اس پر اسی وکرم کا نام کنندہ ہے جو تمہارے پتا جی ہیں۔ یہ سب کچھ بتانے کے بعد شانو کی سانسیں اکھڑ گئیں اس کی روح اس کے قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
شانو کے اچانک انتقال کرنے سے وکرم پر اس قدر صدمہ ہواتھا کہ اس کی حالت مہینوں تک دیوانوں کی سی رہی۔ وکرم کی ماں سیٹھانی نے اس کی شادی اپنے ہی رتبہ کے خاندان کی ایک لڑکی سے کرنا چاہی۔ مگر وکرم نے صاف انکار کر دیا تھا۔
ایک دن وکرم نے کنول سے پوچھاکہ ناری نیکتن سے تجھے کیوں نکالا گیااور سکول کیوں نہ گئے ؟
’’فارم میں باپ کی جگہ کیا لکھتا۔ ماں نے بتایا ہی نہیں‘‘
’’ تمہاری ماں کاکیا نام تھا؟‘‘
اس کا نام شانو تھا۔ اس نے مرتے وقت آخری ہچکیاں لیتے ہوئے مجھے اس حویلی میں جانے کے لئے کہا۔
جہاں اس کے والدین گھریلو ملازم تھے ۔ اور جن کے مرنے کے بعد وہ اسی گھر میں رہی۔ وہاں وہ کئی سال نو کرانی کی طرح رہی ۔ پھر وہاں سے کسی مجبوری کی وجہ سے ناری نیکتن بھیجی گئی تھی۔
اسے حویلی کے منیم نے منگل سوتر اور انگوٹھی دی جس پر وکرم نام کنندہ تھا۔
اور… اور/ اور وہاں!
اس نے مجھے کہا تھا کہ وہی وکرم تمہارے باپ ہیں۔
میں تو ماں کے کہنے کے مطابق اس حویلی میں آیا اور ماں نے آپ سے پوری بات کہنے کو کہاتھا کیونکہ وہ ہی تمہار اپتا ہے ۔
وکرم کے دل کے کسی کونے میں اب بھی شانو کی یاد تازہ تھی۔
کنول نےکا نپتے ہاتھوں سے اپنی جیب سے رومال میں بندھی ہوئی ایک چھوٹی سی پوٹلی نکال کروکر م کو تھمادی جس میں منگل سوتر اور انگوٹھی تھی اس نے ایک نظر منگل سوتر پر ایک انگوٹھی پر ڈالی۔
اب وکرم کو پورا یقین ہوگیا ، اس کے پاس انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ ’’ہاں یہ انگوٹھی میں نے ہی شانو کو دی تھی۔‘‘
’’ کیا یہ منگل سوتر آپ کی نانی کا نہیں ہے اور کیا یہ انگوٹھی وکرم صاحب کی یعنی میرے پتاجی کی نہیں ہے۔‘‘ کنول نے ہمت جٹا کر سب کے سامنے کہہ ڈالا۔
ہاں یہ سچ ہے یہ انگوٹھی میں نے ہی شانو کو دی تھی۔ اس پرمیرا ہی نام ہے، وکرم نے کہا اور پھر سیٹھانی نے بھی کہا کہ ہاں ہاں یہ منگل سوتر میری ساس کا ہے جو میں نے منیم کو دیاتھا کہ وہ یہ دونو ں چیزیں شانو کو دے تاکہ ناری نیکتن والے اس کو شادی شدہ بیوہ سمجھیں۔
اس طرح کنول پھر ایک بار نو کر سے زمیندار خاندان کاوارث بن گیا ۔
اللہ جس کو اور جس وقت عزت ووقار دینا چاہتاہے عطا کردیتا ہے۔
���
ہمہامہ سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛8825051001