بلال کشمیری
رئیس احمد کمار ایک نوجوان قلمکار ہونے کے ساتھ ساتھ محکمۂ تعلیم میں بطور استاد تعینات ہیں۔ ان کا تعلق بری گام، قاضی گنڈ سے ہے۔ حال ہی میں ان کا افسانوی مجموعہ ’’تسکین دل‘‘ منظرِ عام پر آیا ہے، جس میں چالیس کے قریب افسانے شامل ہیں۔رئیس احمد کمار کو افسانہ نویسی کا شوق بہت پہلے سے ہے۔ ان کے افسانے ریاست اور ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس افسانوی مجموعے میں شامل افسانے اور افسانچے مختلف موضوعات اور فکری پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔
افسانہ ’’نیکی‘‘ میں مصنف نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے ساتھ بھی ہمدردی سے پیش آنے کا پیغام دیا ہے۔
افسانہ ’’قبر‘‘ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہر انسان کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے عزیز و اقارب کی تجہیز و تکفین بہتر انداز میں انجام دے سکے۔ اس افسانے میں بتایا گیا ہے کہ ایک شخص کے انتقال کے بعد اس کی قبر کھودنے کے لیے دوسرے گاؤں سے گورکن بلایا گیا، کیونکہ قریبی رشتہ دار یا ہمسایہ قبر کھودنے سے ناواقف تھے۔ بعد میں یوٹیوب سے ویڈیو دیکھ کر قبر کھودی گئی، جو کہ ایک المیے سے کم نہیں۔
افسانہ ’’بیوہ ‘‘میں فریدہ نامی کردار کی ہمت اور حوصلے کو پیش کیا گیا ہے، جس نے شوہر کی وفات کے بعد اپنے چھ بچوں کی ایسی تربیت کی کہ وہ معاشرے کے لیے مثال بن گئے۔ وہی لوگ جو اسے نصیحتیں کرتے تھے، بعد میں اسی سے تربیت کا راز جاننے کی کوشش کرنے لگے، کیونکہ فریدہ کے بچے ان بچوں سے کہیں زیادہ کامیاب تھے جن کے ماں باپ دونوں زندہ تھے۔
افسانہ ’’الیکشن‘‘ میں بڑی خوبصورتی سے یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح رحمان کھانڈے نے الیکشن جیتنے کے فوراً بعد اپنا رنگ بدلا اور عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ یہ افسانہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی کرتا ہے۔
افسانہ ’’زن مرید‘‘میں مصنف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آج کے نوجوان ماں باپ کی قربانیوں کو فراموش کر دیتے ہیں اور بیویوں کے غلام بن جاتے ہیں۔ نذیر احمد کو ماں باپ نے بے حد شفقت اور محبت سے پالا تھا، مگر شادی کے بعد وہ سب کچھ بھول گیا اور اپنی شفیق ماں پر ہاتھ اٹھایا۔ یہ کردار دراصل ہمارے معاشرے کے ان افراد کی نمائندگی کرتا ہے جو ماں باپ اور بیوی کے درمیان توازن برقرار نہیں رکھ پاتے۔
افسانہ ’’اپنی اولاد‘‘یہ پیغام دیتا ہے کہ ہمیں اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنی چاہیے، ان پر بھروسا رکھنا چاہیے اور انہیں دوسروں کے مقابلے میں کمتر نہیں سمجھنا چاہیے، کیونکہ آخرکار اپنے ہی بچے کام آتے ہیں۔ لہٰذا، بچوں کا اعتماد جیتنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
افسانہ ’’سبق‘‘ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں غریبوں اور حاجت مندوں کی مدد اس انداز سے کرنی چاہیے کہ ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ مدد کے بعد احسان جتانا نہیں چاہیے بلکہ اس انداز سے مدد کرنی چاہیے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔
افسانہ ’’رش ‘‘میں معاشرے کو آئینہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح آج کا انسان اندھی تقلید کا شکار ہو چکا ہے۔ لوگ پیروں اور فقیروں پر اندھا اعتماد کرتے ہیں، جب کہ اللہ اور اس کے کلام پر یقین کمزور ہو چکا ہے، حالانکہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق و مالک ہے، اور اس کی اجازت کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔
اس کے علاوہ اس مجموعے میں اپنی اپنی قسمت، انٹرنیٹ، حمام، خوشی، بڑھاپا، وقت کی پلٹ، ماں سچ بول رہی تھی، حسد جیسے افسانے بھی شامل ہیں۔ دیکھا جائے تو رئیس احمد کمار نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھانے کی کوشش کی ہے اور سماجی مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ہر افسانے پر الگ سے بات کرنا اگرچہ ممکن نہیں، تاہم میں قارئین کو یہ مشورہ دوں گا کہ وہ اس افسانوی مجموعے کو ضرور پڑھیں، کیونکہ یہ مجموعہ نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ ہمارے معاشرتی حقائق کا عکاس بھی ہے۔
[email protected]>