سبزا ر احمد بٹ
آج میں پہلی بار تذبذب کا شکار ہوں کہ بات کہاں سے شروع کروں۔ کیا لکھوں؟ میری زبان لڑکھڑا رہی ہے، ہونٹ کپکپا رہے ہیں اور قلم کانپ رہا ہے۔ آنکھیں اشکبار ہیں۔
حال ہی میں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دل دہلا دینے والی خبر سامنے آئی۔ ایک ماں کو سربازار رسوا کیا گیا۔ بلکہ یوں کہیے کہ ماں کے مقدس رشتے کو شرمسار کیا گیا،جب اس کے دو سگے بیٹوں نے پولیس تھانے میں یہ تحریری بیان دیا کہ وہ نہ صرف اپنی ماں کو اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کرتے ہیں بلکہ اس کے لیے دوا تک نہیں لائیں گے۔ یہاں تک لکھا کہ ’’ہم اپنی ماں کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوں گے۔‘‘اور ستم بالائے ستم، ان دونوں بیٹوں کی آمدنی لاکھوں میں ہے۔
یہ خبر پڑھ کر زمین لرز اٹھی، آسمان شرمسار ہوا اور انسانیت کا سر جھک گیا۔المیہ یہ ہے کہ یہ واقعہ کسی اور ملک یا دور دراز خطے میں نہیں، ہمارے اپنے کشمیر میں پیش آیا۔ چند برس قبل اس خطے میں ایسے حالات کا تصور بھی محال تھا۔یہ ہماری اخلاقی زوال، غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل، اور اجتماعی غفلت کا نتیجہ ہے۔ہم کس منہ سے کہیں گے کہ ہم انسان ہیں؟
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اب یہ سب کچھ ہمارے معاشرے میں عام ہوتا جا رہا ہے۔ کہیں ماں کو چپل سے مارا جاتا ہے، کہیں باپ کو سڑک پر گھسیٹا جاتا ہے۔آخر ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ ہماری اقدار، ہماری روایات، ہمارا ضمیر کہاں کھو گیا؟اخلاقیات کا جنازہ اس قدر جلد کیسے نکل گیا؟
ہم آج خود کو ماڈرن کہتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہم تعلیم یافتہ ہیں۔لیکن کیا واقعی تعلیم نے ہمیں اندھیرے سے نکال کر روشنی دی ہے؟اگر تعلیم روشنی ہے تو ہم اس روشنی میں بھی اتنے اندھے کیوں ہو گئے ہیں؟ہماری نسل کے دلوں سے ماں کی عظمت کیوں مٹ گئی ہے؟
ایک ماں وہ ہستی ہے جو نو مہینے تک اپنے وجود میں بچہ پالتی ہے، خون پسینہ ایک کر کے اس کی حفاظت کرتی ہے۔ زچگی کی اذیت سہتی ہے، لیکن بچے کی مسکراہٹ ساری تکلیف بھلا دیتی ہے۔وہ خود گیلا بستر قبول کرتی ہے، بچے کو خشک جگہ سلاتی ہے۔خود فاقے برداشت کرتی ہے لیکن بچے کو پیٹ بھر کھانا دیتی ہے۔پھٹے پرانے کپڑے خود پہنتی ہے، مگر بچے کے لیے اچھے لباس کا بندوبست کرتی ہے۔ماں اپنی جوانی، صحت، آرام، سب قربان کر کے بیٹے کو جوان کرتی ہے۔جیسا کہ شاعر نے کہا ؎
وہ دن آیا کہ جب پورا ہوا میں
مگر تب تک وہ آدھی ہو گئی تھی
اور باپ؟وہ اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر بچوں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔گرمی، سردی، بیماری، تھکن سب برداشت کرتا ہے، لیکن بچوں کو ہر سہولت فراہم کرتا ہے۔
لیکن جوں ہی اولاد جوان ہوتی ہے، وہ سب قربانیاں بھول جاتی ہے۔جوانی اور دولت کا نشہ انہیں اندھا کر دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ ماں باپ کو ٹھکرا کر اپنی جنت گنوا دیتے ہیں۔ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے،مگر آج کے نوجوان ماں باپ کو گھر سے نکال کر جہنم کی راہوں پر چل نکلتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کہاں جا رہی ہے؟اگر ہم نے ابھی بھی ہوش کے ناخن نہ لیے، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بچے ہمیں اولڈ ایج ہوم میں دھکیل دیں گے۔ہمیں آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کی تربیت سنجیدگی سے کریں۔انہیں سوشل میڈیا کی دنیا سے نکال کر کتابوں، علم و ادب، اور اخلاقی تعلیم کی طرف راغب کریں۔بزرگوں اور نوجوانوں کے درمیان بڑھتے فاصلے کو کم کریں۔اپنے گھروں میں علم و تہذیب کی فضا قائم کریں۔ہمارے بزرگ تجربے کا خزانہ ہیں۔انہیں اپنانا، ان سے سیکھنا اور ان کے تجربات کو آگے منتقل کرنا ہماری نئی نسل کی کامیاب تربیت کی ضمانت ہے۔
ہمیں ایک بار پھر درسگاہوں کا رخ کرنا ہوگا،مساجد، مدارس، مولوی صاحبان، علما، خطباء اور اساتذہ کے وقار کو بحال کرنا ہوگا۔کیونکہ یہی وہ ستون ہیں جو معاشرے کو اخلاقی تباہی سے بچا سکتے ہیں۔منشیات ایک ناسور بن چکا ہے۔صرف تقریریں اور جلسے کافی نہیں، ہمیں عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔یہ سچ ہے کہ اتنی بڑی مصیبت کو جڑ سے اکھاڑنا ایک فرد کے بس کی بات نہیں،لیکن اگر ہم اپنے حصے کا دیا جلائیں اپنی ذمہ داری نبھائیں،تو یہ معاشرہ پھر سے ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔
[email protected]>