عظمیٰ نیوزڈیسک
نئی دہلی//یمن میں سزائے موت کا سامنا کر رہی ہندوستانی نرس نمیشا پریا کی پھانسی تو وقتی طور پر ٹل گئی ہے لیکن اس کے خلاف اٹھنے والی عالمی انسانی آواز اور سفارتی کوششوں کے باوجود مقتول کے اہل خانہ کا مؤقف سخت اور غیر لچکدار نظر آ رہا ہے۔نئی دہلی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق، 16 جولائی کو طے شدہ پھانسی کو یمنی حکام نے ملتوی کر دیا ہے۔ ہندوستان نے حالیہ دنوں میں سفارتی سطح پر کافی سرگرمی دکھائی، تاکہ نمیشا کے اہل خانہ کو کچھ وقت ملے اور وہ مقتول طلال عبدو مہدی کے خاندان کے ساتھ ’خون بہا‘ یعنی دیت پر کوئی قابل قبول معاہدہ کر سکیں۔ کیرالہ کے عالم دین ابوبکر مسلیار بھی ثالثی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ تاہم، ان کوششوں کو مقتول کے اہل خانہ کی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔دی ہندو پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق، طلال کے بھائی عبدالفتح مہدی نے ایک فیس بک پوسٹ میں صاف طور پر کہا ہے کہ ان کا خاندان کسی مالی سمجھوتے یا رحم کی اپیل پر آمادہ نہیں۔ انہوں نے عربی زبان میں لکھا، ’’جو کچھ ہم آج سنتے ہیں، وہ ہمارے لیے نیا یا حیران کن نہیں۔ برسوں سے صلح کی خفیہ کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن دباؤ یا اپیل سے ہمارا مؤقف نہیں بدلا۔ ہمارا مطالبہ صرف قصاص ہے اور ہم اسی پر قائم ہیں۔‘‘عبدالفتح نے مزید کہا، ’’پھانسی کا التوا ہمارے لیے غیر متوقع تھا لیکن اس سے ہمارا حوصلہ کم نہیں ہوا۔ خون خریدا نہیں جا سکتا، سچ بھلایا نہیں جا سکتا اور قصاص ضرور ہوگا — چاہے جتنا وقت لگے۔‘‘