میر شوکت پونچھی
کشمیری شادی کا سب سے مہنگا اور سب سے منافع بخش کاروبار اگر کسی نے سمجھا ہے، تو وہ ہے وازوان۔ یہ وہ کھانا ہے جو دل کے راستے پیٹ میں جاتا ہے اور پیٹ کے بہانے سماج میں جا دھمکتا ہے۔ کشمیر میں اگر کسی کی عزت بچی ہے تو وہ یا تو بندوق سے، یا غوشتابے سے۔باقی سب کچھ یا تو قابض ہے یا قابلِ ہضم۔
کہا جاتا ہے کہ وازوان کی جڑیں وسطی ایشیا سے نکلیں اور کشمیر کے نرم و نازک پہاڑوں کی گود میں آ کر بس گئیں۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ ترک، ایرانی اور مغلیہ طباخوں کے قافلے جب وادی کی نرمیوں میں داخل ہوئے تو ان کے ہاتھوں میں چمچ نہیں، چھریاں تھیں، مگر وہ چھریاں خون کے لیے نہیں، گوشت کی باریکیوں کے لیے تھیں۔
ان باورچیوں کو کشمیریوں نے ’’واس‘‘ کہا اور ان کے ہنر کو’’وان‘‘ یوں واس + وان = وازوان بنا۔ اور تب سے اب تک، یہ صرف کھانا نہیں رہا بلکہ کشمیری قوم کی اجتماعی نفسیات، اقتصادی خودکشی اور ثقافتی تفاخر کا نمائندہ بن گیا۔یہ کھانا نہیں، ایک تہذیبی افسانہ ہے۔ جس میں ہر ترامی ایک تھیٹر ہے، ہر ڈش ایک کرداراور ہر نوالہ ایک مکالمہ۔ جب چمچ گوشت میں ڈوب کر زبان تک پہنچتا ہے تو لگتا ہے جیسے گورنر ہاؤس کا خفیہ پیغام ہو،نہ سمجھنے والا اسے ہضم کر پاتا ہےنہ بھولنے والا۔
وازوان کی فہرست اگر کسی بادشاہی فرمان کی مانند پڑھیں تو یوں شروع ہوتی ہے: طبق ماز،کباب، رستا، روغن جوش، غوشتابہ، یخنی، دانے وال کورما، دم آلواور نہ جانے کتنی اور چھوٹی بڑی ڈشیں جو دسترخوان پر اپنی اپنی حیثیت میں رعب جمائے بیٹھی ہوتی ہیں۔ سواے پنیر کے جواس وازان میں واحد سبزی کا رول ادا کرتی ہےاور احساسِ کمتری میں زیادہ لال رہتی ہے،مگر ان سب کے بیچ ایک چیز ہر ترامی میں خاموش، معصوم اور مستقل پھیلی ہوتی ہے، وہ ہےچاول۔
سب سے زیادہ ظلم اگر وازوان میں کسی کے ساتھ ہوتا ہے، تو وہ نہ قباب ہے، نہ تبق ماز ،نہ غوشتابہ، نہ یخنی۔ اصل مظلوم وہ چاول ہے جو دلہن کی طرح سفید، پاکیزہ اور نفیس ہوتا ہے، مگر قسمت ایسی کہ ہر ترامی میں سب سے پہلے کچرے میں دھکیلا جاتا ہے۔ اسے نہ کسی نے اہمیت دی، نہ نظرِ التفات ڈالی۔ گوشت کے نیچے دبا کر یوں پیش کیا جاتا ہے جیسے کوئی ریشمی قالین جو جوتوں کے نیچے ہو اور اسے نظر انداز کردیا گیا ہو۔
مہمان جب ترامی کھولتا ہے تو آنکھیں فوراً طبق ماز کو ڈھونڈتی ہیں ، رِستے پر جا گرتی ہیں، قباب پر جھپٹتی ہیں، مگر بیچارا چاول؟ وہ تو بس اس لیے ہوتا ہے کہ پلیٹ بھر جائے، دل نہیں۔ کوئی اس کی خوشبو نہیں سونگھتا، کوئی اس کی نرمی کی تعریف نہیں کرتا۔ ہاتھ سیدھا گوشت پر پڑتا ہے، جیسے چاول صرف کسی سزا کے طور پر نیچے ڈال دیا گیا ہو۔
پھر وہ منظر آتا ہے جو ہر چاول کی کہانی کا افسوسناک انجام ہوتا ہے،کسی کے ہاتھ میں ایک آدھ دانہ آ جائے تو غلطی، ورنہ باقی سب ترامی کے کنارے لگے رہتے ہیں، سوکھتے ہیں، سسکتے ہیں اور آخرکار دسترخوان سمیت کوڑے دان کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔ چاول جو کبھی دھلے، پھولے، دم پر رکھے گئے تھے، وہ چپ چاپ ضائع ہو جاتے ہیں، گویا انسانیت کے ضمیر کی ایک تہہ انہیں چھوئے بغیر گزر گئی ہو۔تکبر اور فضول خرچی کا شایبہ تک نہیں گذرتااور اگر کسی مہمان نے چاول کھانے کی جرأت کی بھی، تو اسے ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے وہ بچپن میں سلیٹ چاٹنے والا بچہ ہو۔چاول کھانا وازوان میں ایک ایسا جرم ہے جو صرف وہی مہمان کرتا ہے جسے یا تو کھانے کی تمیز نہیں، یا رشتے میں دور کا ہو،ایک رسم تو ہر کشمیری تقریب کا سب سے مقدس اور سب سے پلاسٹکی عمل بن چکی ہے: کھانے کے بعد بچا کھچا سامان پیک کرنا۔
جی ہاں! وہی لمحہ جب مہمانوں کی آنکھوں میں وہ چمک آتی ہے جو گویا’’اب اصلی دعوت شروع ہوئی‘‘ کا اعلان ہو۔ شاپر کھلتے ہیں، چمچ لپکتا ہے اور غوشتابے کے بچے کچھے گوشے اس مہارت سے نکالے جاتے ہیں جیسے خزانے کی تلاش ہو۔
مہمان ایسے شاپر میں کھانا بھرتے ہیں جیسے کسی مشن پر ہوں اور ان کے انداز سے لگتا ہے کہ شاید اگلے پانچ دن قحط پڑنے والا ہے۔ کوئی قباب کو چار حصوں میں بانٹتا ہے، کوئی رستہ کو الگ شاپر میں رکھتا ہے اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہڈیاں بھی ساتھ لے جاتے ہیں کہ کل کتے کو بھی نصیب ہو جائے۔
اس قومی’’پیکنگ‘‘ کے دوران جو مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، وہ بسا اوقات پوری تقریب پر بھاری پڑتے ہیں۔ ایک خاتون گوشت کے ساتھ چمچ بھی اٹھا لے جاتی ہیں، ایک صاحب نے تو پچھلے ہفتے ترامی کا ڈھکن بھی باندھ کر لے جانے کی کوشش کی اور خاص بات یہ ہے کہ اس دوران میزبان کچھ نہیں کہتا، بس دل میں آہستہ آہستہ قسطوں میں روتا ہے۔کچھ مہمان تو اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ ان کے بیگ کے اندر پہلے سے تین پلاسٹک شاپر، دو المونیم فوائل اور ایک ٹیپر ویئر باکس رکھا ہوتا ہے، جیسے وازوان نہ ہوا، کوئی سروائیول کیمپ ہو، اور واپسی پر ان کے ہاتھ میں وہ’’خیرات زدہ‘‘ کھانے کے پیکٹ ایسے جھولتے ہیں جیسے جنگ کے
بعد کوئی فتحیاب سپاہی اپنے جھنڈے کے ساتھ واپس لوٹ رہا ہو۔
کبھی کبھار تو ایسے بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ مہمان خود تو تین قاش گوشت کھاتے ہیں اور باقی پانچ شاپر میں بھر کر غریب پڑوسیوں کو دینے کے بہانے گھر لے جاتے ہیں اور پھر رات کو خود ہی چاٹتے ہیں، جیسے ثواب بھی مل گیا، اور مزہ بھی۔ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان شاپر کے کھانے اگلے دن اکثر فریج میں رکھے جاتے ہیں اور چار دن بعد جب وہ خراب ہو کر بدبو دینے لگتے ہیں، تو گھر والے کہتے ہیں،’’پتہ نہیں میزبان نے گوشت ٹھیک پکایا بھی تھا یا نہیں!‘‘ یعنی قصور وار وہی میزبان، جس نے مفت میں گوشت کھلایا اور اب بددعائیں بھی سمیٹ رہا ہے۔گویا وازوان صرف ایک دن کی دعوت نہیں، بلکہ ایک سماجی فلم ہے، جس میں چاول ہمیشہ ولن، پلاسٹک بیگ ہیرو اور مہمان وہ اداکار ہوتے ہیں جو بغیر اسکرپٹ کے ایسا رول ادا کرتے ہیں کہ ہنسی بھی آتی ہے اور دل بھی کڑھتا ہے۔
اور ذرا سوچئے کہ اگردسترخوان کے کنارے چپکے ہوئے ایک آخری دانے کی خاموشی اچانک بول پڑے۔ جی ہاں، وہی چاول، جو سب کے نیچے دبا، سب کے منہ سے بچا اور آخرکار کوڑے کی قسمت ہوا، یہ وصیت کر دے کہ’’اے میرے خالق واس!مجھے جو ابال کر نرم کیا، دم پر رکھا اور چاندی کی ترامی میں سجا کر پیش کیا — میں شکر گزار ہوں۔ مگر اے مہمانِ مکرم! اگر تجھے گوشت سے ہی عشق ہے تو کم از کم مجھے یوں نظرانداز نہ کر جیسے میں تیرے چمچ کا پچھلا جنم ہوں تو آپ کے پاس کیا جواب ہوگا؟وازوان ختم ہو سکتا ہے، ترامی اٹھ سکتی ہے، شاپر بھر سکتا ہے — مگر چاول کی یہ آخری وصیت شاید آپ کے ضمیر میں کچھ دیر اور پکتی رہے۔
[email protected]