نعمت اللہ رضا خواؔ ب
خدا ۓ برحق کی بنا ئی ہوئی اس کا ئنات میں اب تک ہزاروں تبدیلیاں ہو چکی ہے اور ان تبدیلوں کی بنا پر اس عالم کے باشندوں نے طرح طرح کی مصیبتیںجھیلی ہیں، الغرض ہر انسان تخلیق نے دوسروںکی نوکریاں چھین لی اور دور حاضر میں با انسانی تخلیق مصنوعی ذہانت نے بچوں کی تعلیم پہ اپنی اثر دکھانا شروع کر دیا۔
مصنوعی ذہانت کی حقیقت:مصنوعی ذہانت نامی یہ انسانی تخلیق اکیسویں صدی میں انسانوں کے سامنے ظاہر کیا گیا۔ یہ ایک ایسی انسانی تخلیق ہے کہ اس سے جو بھی چاہو ،سوال کرو چند سکینڈ میں جوابات آپ کے سامنے موجود رہے گا۔ اس کو بنا نے والے شخص کا نام ’ سیم آلٹ مین‘ ہے۔ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے لوگوں کو جو چاہے، وہ کچھ ہی پل میں ہی دستیاب ہو جاتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کا بچوں کی تعلیم پر اثر:بچوں کے مستقبل کا ماں، باپ اور ان کے اساتذہ نہایت ہی خیال رکھتے ہیں، مگر آج کی یہ انسانی تخلیق نے وہ سستی لانے کا کام کیا ہے جس کو دیکھ کر عقل مند اور دانشوروں نے یہی کہا کہ انسانی زندگی میں مصنوعی ذہانت جتنا فائدہ مند ہے، اتنا ہی نقصان کا باعث بھی ہے، کیونکہ جہاں ایک جانب مصنوعی ذہانت لوگوں کی مدد اور سوالات کے جوابات فراہم کر رہی ہے، وہیں دوسری جانب وہ بچوں کی تعلیم پر بھی بُرے اثرات دکھا رہی ہے۔دورِ حاضر میں مصنوعی ذہانت بچوں کی تعلیم پر بھی فائدہ مند اثرات ظاہر کر رہی ہے۔ جس طرح طالبِ علم مصنوعی ذہانت کے ذریعے اپنی پڑھائی مکمل کر رہے ہیں اور دھُرو راتھی جیسے یوٹیوبرز اپنی زندگی مصنوعی ذہانت کے ذریعے کامیاب بنا رہے ہیں اور لاکھوں روپے مہینے کا کما رہے ہیں، اس انسانی تخلیق نے اگر سب سے زیادہ فائدہ کسی کا کیا ہے تو وہ ایک غریب آدمی ہے۔جو اگر ایک پینٹر ہے اور اُس کے پاس پینٹ خریدنے کے پیسے نہیں ہیں، مگر وہ اپنے دماغ کے ذریعے، اپنے خیالات کو ظاہر کر کے، مصنوعی ذہانت کو بتا کر ایسی پینٹنگ بنوا سکتا ہے جو اس کی سوچ کا عکس ہوں۔
طالبہ کی زندگی میں مصنوعی ذہانت کے فوائد: طالبِ علم کا زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ اگر اُس دور میں آپ کو خود سے اپنے کاموں کے کرنے کا علم ہے تو آپ کے لیے آپ کے مستقبل کا راستہ نہایت ہی آسان اور فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔مگر دورِ حاضر میں انسان کی تخلیق، مصنوعی ذہانت، یہ جو انسانی تخلیق ہے، بچوں کی زندگی کو اور ان کے مستقبل کو نکھارنے کا موقع بنانے کا کام کر رہا ہے۔اگر بچوں کو کسی بھی قسم کی کوئی مشکل آتی ہے یا کچھ نہیں سمجھ آتا ہے تو وہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے اپنے سوالوں کے جوابات حاصل کرتے ہیں اور جو دیگر ادبی کام ہیں، اُن میں بھی مصنوعی ذہانت نہایت ہی فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے، جیسے مضمون نویسی اور شاعری لکھنے جیسے کام وہ با آسانی کر سکتا ہے۔
تعلیمی میدان میں مصنوعی ذہانت کے منفی پہلو: پرانے زمانے میں جہاں ایک طرف بچوں کو کچھ پڑھنا رہتا تھا تو وہ ایک موضوع پر الگ الگ کتابیں پڑھا کرتے تھے، وہیں دوسری جانب آج کے زمانے میں ان کو اگر کسی موضوع کے بارے میں جاننا ہوتا ہے تو مصنوعی ذہانت کے ذریعے صرف اس چیز کو ہی جان پاتے ہیں، اس کے علاوہ اور کچھ ان کے ہاتھ نہیں آتا۔اگر ہم کسی چیز کو اچھی طرح استعمال کرتے ہیں تو وہ ہمیں فائدہ پہنچاتی ہےاور وہی دوسری جانب اگر ہم کسی چیز کا غلط استعمال کرتے ہیں تو اس کا ہمیں نقصان ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک موبائل فون، اس کا اچھا استعمال کر کے کچھ لوگ اچھے آدمی اور عالم بن جاتے ہیں جبکہ اس کا غلط استعمال کر کے اپنی زندگی برباد کر لیتے ہیں۔
رابطہ۔9199258187
[email protected]>