عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر//لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے کشمیر کی معیشت کو درہم برہم کرنے اور فرقہ وارانہ فساد کو ہوا دینے کے لیے پاکستان کی سرپرستی میں کی جانے والی کارروائی قرار دیا۔ سیکورٹی کی خرابی کا اعتراف کرتے ہوئے، انہوں نے مقامی ملی ٹینٹوں کی بھرتی میں کمی کو اجاگر کیا اور ملی ٹینسی کے خلاف حکومت کے عزم پر زور دیا۔سنہا نے پہلگام حملے کے بعد سیاحتی سرگرمیوں کو آنے والا عارضی دھچکا قرار دیالیکن امید ظاہر کی کہ جاری امرناتھ یاترا ایک اہم موڑ ثابت ہوگی۔ٹائمز آف انڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، سنہا نے اس حملے کو پاکستان کی طرف سے اسپانسر شدہ ملی ٹینسی کی کارروائی قرار دیا جس کا مقصد فرقہ وارانہ تفریق کو بونا اور خطے کی اقتصادی ترقی کو پٹری سے اتارنا ہے۔سنہا نے کہا’’ میں اس واقعے کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں، جو بلاشبہ سیکورٹی کی ناکامی تھی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ یہ حملہ ہندوستان کے اتحاد کو نشانہ بنانے کی دانستہ کوشش تھی، لیکن اسے اس بات کے ثبوت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے کہ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ملی ٹینسی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔انہوں نے کہا، “پڑوسی(پاکستان)کا ارادہ فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنا اور ملک کے دوسرے حصوں میں رہنے والے جموں و کشمیر کے لوگوں کے خلاف ردعمل پیدا کرنا تھا، جس سے بیگانگی کے احساس میں اضافہ ہوتا،” ۔سنہا کے مطابق، حملے کے وقت اور مقام کا مقصد کشمیر کے بڑھتے ہوئے سیاحتی شعبے اور مجموعی اقتصادی بحالی کو نقصان پہنچانا تھا۔انہوں نے کہا”پچھلے پانچ برسوںمیں، جموں و کشمیر کی معیشت کا حجم دوگنا ہو گیا ہے،سیاح بڑی تعداد میں آرہے ہیں، یہ کشمیر کی معاشی بہبود پر پاکستان کی طرف سے ایک دھچکا تھا،” ۔انہوں نے بتایا، ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا کہ عام کشمیریوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر مذمت ایک “پاکستان اور تنظیموں کو مناسب جواب ہے۔”یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اس حملے میں مقامی ساتھیوں کی شرکت سیکورٹی فورسز کے لیے ایک نیا چیلنج ہے، سنہا نے کہا کہ ملی ٹینٹوں کی مقامی بھرتی ریکارڈ کم ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا”پچھلے سال 6-7 کے مقابلے میں اس سال مقامی بھرتی کا صرف ایک واقعہ ہوا ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ تعداد 150-200 ہوتی تھی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے جموں خطے اور کشمیر دونوں خطوں میں ملی ٹینٹوں کی بڑی تعداد کی دراندازی کی سہولت فراہم کی ہے،” ۔انہوں نے کہا کہ پہلگام حملے نے سیاحت کو ایک عارضی دھچکا پہنچایا،اس واقعے کے بعد سیاحوں کی آمد تقریبا ًرک گئی تھی، ہمیں یقین ہے کہ امرناتھ یاترا ایک اہم موڑ ثابت ہو گی۔”ایل جی نے تصدیق کی کہ حملے کے بعد بند کر دیے گئے سیاحتی مقامات بتدریج دوبارہ کھل گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “بہت سے پہلے ہی کھولے جا چکے ہیں، باقی کو بھی ہر ایک کے لیے ایک مضبوط سیکورٹی پلان کو حتمی شکل دینے کے بعدمرحلہ وار کھولا جائے گا‘‘۔وسیع تر سیکورٹی ماحول پر غور کرتے ہوئے، سنہا نے کہا کہ آپریشن سندور کی کامیابی نے پاکستان کے لیے واضح سرخ لکیریں کھینچ دی ہیں۔”ہندوستان نے واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی حملے کو جنگ کی کارروائی تصور کیا جائے گا۔ ہماری افواج نے پاکستان میں ملی ٹینسی کی تنصیبات کے خلاف جس طرح سے درست حملے کیے، اس نے ایک سخت پیغام پہنچایا۔انہوں نے خبردار کیا لیکن ایک ایسا ملک جس نے ملی ٹینسی کو اپنی اعلانیہ ریاستی پالیسی بنا لیا ہے، اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا،” ۔چیلنجوں کے باوجود، سنہا نے اعتماد ظاہر کیا کہ مرکزی وزارت داخلہ، وزارت دفاع اور انٹیلی جنس ایجنسیاں مستقبل کے کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔