مختار احمد قریشی
راشد ایک ایسا لڑکا تھا جس نے بچپن ہی سے زندگی کو آسان نہیں پایا۔ غربت، یتیمی، اور بے سہارا حالات نے اس کے دل و دماغ پر وہ نشان چھوڑے جو اکثر بچوں کے چہروں پر معصوم مسکراہٹوں سے چھپ جاتے ہیں، مگر راشد کا چہرہ ان نشانوں کو فخر سے اٹھائے پھر رہا تھا۔
چھوٹی عمر سے ہی وہ محنت کا پیکر تھا۔ گاؤں میں جب دوسرے بچے کھیل کود میں مشغول ہوتے، راشد کسی دوکان پر کام کرتا، یا اسکول کے بعد گاؤں کے ویرانے میں بکریاں چرا رہا ہوتا۔ اس کے کپڑے پرانے، لیکن نیت نئی ہوتی۔ نہ اس نے کبھی خیرات مانگی نہ کبھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا۔ اس کی ایک ہی ضد تھی: “مجھے خود کچھ بننا ہے۔”
جب راشد نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھاتو اس نے شہر کا رخ کیا۔ مزدور کے طور پر ایک سرکاری دفتر میں صفائی کا کام ملا۔ دفتر میں افسران اس کی محنت، صاف دلی، اور پابندی وقت سے اتنے متاثر ہوئے کہ اسے سب پیار سے ’چھوٹے صاحب‘ کہنے لگے۔ وہ کاغذات فائلوں میں اس مہارت سے ترتیب دیتا کہ کئی کلرک شرمندہ ہو جاتے۔ جلد ہی اس کا کام دفتری نظام میں مشہور ہو گیا۔
مگر جیسے ہر کامیاب شخص کے راستے میں کانٹےآتے ہیں، ویسے ہی راشد کے راستے میں بھی کچھ ضدی لوگ آ کھڑے ہوئے۔ وہ لوگ، جنہیں اس کی ترقی اپنی ناکامی لگتی تھی۔ جنہوں نے سالوں کام کیا مگر آج بھی وہیں تھے جہاں کل تھے۔ ان کے دل میں راشد کی کامیابی نے ضد پیدا کی، حسد نے جلتی آنکھوں سے راشد کو گھورنا شروع کر دیا۔
راشد نے ان کی باتوں کا جواب نہیں دیا۔ بس اپنا کام کرتا رہا۔ ایک دن ایک افسر نے اس سے کہا، “بیٹا، لوگ تم سے جلتے ہیں، کیوں نہیں تم تھوڑا پیچھے ہٹ جاؤ، اپنا ہی نقصان کر لوگے؟”
راشد مسکرایا اور دھیرے سے بولا، “سر، میں پیچھے ہٹ جاؤں گا تو میری ماں کی وہ دعائیں، جو اس نے سسکتے سسکتے دی تھیں، وہ سب رائیگاں ہو جائیں گی۔ میں ضدی ضرور ہوں، مگر صرف اپنی سچائی، محنت، اور ماں کے خواب کے لئے۔”
وقت گزرتا گیا، راشد نے شام کی کلاسوں میں تعلیم مکمل کی، ایک امتحان دیا اور آخرکار اسی دفتر میں افسر بن گیا۔ جنہوں نے کبھی اس کی بے عزتی کی تھی، اب وہی اس کے ماتحت تھے۔ مگر راشد نے کبھی کسی کو ذلیل نہیں کیا۔ اس نے سب کو عزت دی، حتیٰ کہ ان ضدی لوگوں کو بھی۔
ایک دن اس کے ایک پرانے مخالف نے کہا، “راشد، تو واقعی ضدی ہے، مگر ہم جیسے لوگ تو بس لوگوں کو گرا کر جیتنا چاہتے تھے، تُو نے خود کو اٹھا کر جیتا۔”
راشد نے جواب دیا، “میری ضد صرف خود سے مقابلہ کرنے کی تھی اور یہی ضد مجھے زندگی میں لے کر آگے آئی۔”
راشد کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر ضد مثبت ہو تو وہ کامیابی کی کنجی بن جاتی ہے۔ ضد کا راستہ مشکل ضرور ہوتا ہے، مگر سچا ہو تو منزل کبھی دور نہیں ہوتی۔
���
بارہمولہ کشمیر
موبائل نمبر؛8082403001
[email protected]