عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/وادی کشمیر میں ان دنوں آلو بخارا کی فصل سمیٹنے کا عمل زوروں پر ہے، لیکن جہاں ایک طرف کسان اچھی پیداوار پر خوش نظر آ رہے ہیں، وہیں دوسری طرف بازار میں قیمتوں میں گراوٹ نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ بیشتر کسانوں کا کہنا ہے کہ پیداوار بہتر ہونے کے باوجود وہ منافع حاصل کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں کیونکہ آلو بخارے کی قیمت پچھلے برس کے مقابلے میں خاصی کم ہو گئی ہے۔
مقامی کسان ریاض احمد نے یو این آئی سے گفتگو میں کہا کہ:’اس وقت ایک آلو بخارے کے ڈبے کی قیمت صرف 100 سے 150 روپے کے درمیان ہے جبکہ اس ڈبے کی پیکنگ، مزدوری، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر اخراجات پر تقریباً 30 سے 50 روپے کا خرچہ آتا ہے۔ اس حساب سے منافع نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی۔‘کسانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اس بار مارکیٹ میں آلو بخارے کی قیمت میں 20 سے 30 فیصد تک کمی آئی ہے، جس سے کسان شدید متاثر ہوئے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جن کا سارا انحصار باغبانی پر ہے۔
ریاض احمد کے مطابق، آلو بخارا ایک نازک پھل ہے جو وقت پر اگر منڈی تک نہ پہنچایا جائے تو خراب ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا:’آلو بخارے کی کھیپ کو تین دن کے اندر اندر دہلی، چندی گڑھ یا دیگر بڑے شہروں تک پہنچانا لازمی ہے۔ اگر ایک دن کی بھی تاخیر ہو جائے تو پھل گلنا سڑنا شروع کر دیتا ہے اور مکمل نقصان ہو جاتا ہے۔‘
کسانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جس طرح چیری کی ترسیل کے لیے وندے بھارت ایکسپریس ٹرین کا استعمال کیا گیا، اُسی طرز پر آلو بخارے کی بروقت ترسیل کے لیے بھی وندے بھارت ایکسپریس کو استعمال میں لایا جائے۔فیاض احمد نامی ایک تاجر نے کہا :’چیری کے لیے جب وندے بھارت سے پھل بھیجے گئے تو کسانوں کو اچھا منافع ملا۔ آلو بخارے کے لیے بھی ایسی سہولت ہونی چاہئے تاکہ مال تازہ حالت میں باہر کی منڈیوں تک پہنچے اور کسانوں کو فائدہ ہو۔‘کسانوں نے محکمہ باغبانی اور زرعی مارکیٹنگ ایجنسیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آلو بخارے کی برآمدات کے لیے الگ سے ایک لازمی پالیسی مرتب کریں تاکہ اس موسمی پھل کو وقت پر منڈیوں تک پہنچایا جا سکے اور کسانوں کو بہتر دام مل سکیں۔
باغبانی سے وابستہ ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ کشمیر میں اگنے والے موسمی پھل جیسے آڑو، ناشپاتی، آلو بخارا اور سیب کو اگر ریلوے، ہوائی اور سڑک کے موثر ذرائع سے منڈیوں تک پہنچایا جائے تو نہ صرف کسانوں کی آمدنی بڑھے گی بلکہ وادی کی معیشت میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی۔
آلو بخارا کی فصل اگرچہ اس بار بھرپور ہوئی ہے، لیکن مناسب دام نہ ملنے اور ترسیل میں مشکلات کی وجہ سے کسانوں کے لیے یہ فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ اگر حکومت بروقت قدم اٹھائے اور وندے بھارت جیسی تیز رفتار سہولت فراہم کرے، تو کشمیر کے کسان نہ صرف خود کفیل بن سکتے ہیں بلکہ ریاست کی زرعی معیشت میں بھی نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، کشمیر میں اس وقت تقریباً 1,500 ہیکٹر اراضی پر آلو بخارے کی کاشت کی جا رہی ہے، جس سے ہر سال 8,000 ٹن کے قریب پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران یہی اوسط رہی ہے۔
وادی کے وسطی ضلع بڈگام کو آلو بخارے کی سب سے زیادہ پیداوار کے لیے جانا جاتا ہے، جب کہ گاندربل دوسرا بڑا پیداواری علاقہ ہے۔ ان اضلاع کے معتدل موسم اور زرخیز زمین آلو بخارے کی مختلف اقسام کی نشوونما کے لیے موزوں ماحول فراہم کرتے ہیں۔
وادی کشمیر میں آلو بخارے کی کاشت جوبن پر، لیکن نرخوں میں گراوٹ سے کسان پریشان
