ایڈو کیٹ کشن سنمکھ داس
گزشتہ کچھ عرصے سے پوری دنیا عالمی سطح پر دیکھ رہی ہے کہ کچھ سیاستدان اپنے سیاسی وزن کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کے لیے دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے بے چین ہیں، وہ اس کے لیے اندرونی ہنگامہ آرائی کراتے ہیں، حساب کتاب جٹاتے ہیں تاکہ انھیں وہ ایوارڈ ملے، لیکن وہ شاید بھول جاتے ہیں کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی سیاسی میدان میں گزاری،بہت سے اچھے کام بھی کئے، لیکن کبھی بھی اس ایوارڈ کی توقع نہیں رکھی۔
ظاہر ہے اورہمارا ماننا بھی ہے کہ بہترین ایوارڈ حاصل کرنے والاشخص وہی ہوتا ہے یا ہونا چاہئے جس کا ہدف ایوارڈ نہیں بلکہ عوام الناس کی فلاح و بھلا ئی کے لئے کئے گئے کام ہوں اور اُس نظریہ ایسا ہونا چاہیے کہ وہ یہ اپنے سبھی کام ایوارڈ کے لیے نہیں عالم انسانیت ،عدل و انصاف اور بقائے امن کے لئے کررہا ہے۔وہ ایوارڈ کے لئے بھیک نہیں مانگتا ہے بلکہ ایوارڈ خود بخود اس کے پاس چلاآتاہے۔اس کے کام ،اس کا عدل و انصاف ،اُس کی جدوجہد ،اس کے اخلاق ،عالم امن کے لئے اُس کی غیر جانبدانہ کوششیں،منصفانہ طرزِ عمل اور اپنے جائز کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کاعزم و استقلال کے بدولت ہی یہ عالمی ایوارڈ اس کے پاس آتا ہے۔ آج ہم اس موضوع پر اس لیے بات کر رہے ہیں کہ پچھلے کچھ دنوں سے امریکی صدر ٹرمپ سے منسلک نوبل امن انعام کے حوالے سے بحث چل رہی ہے اور اب پاکستان کے بعد اسرائیل نے بھی ٹرمپ کو اس انعام کے لئےنامزد کر دیا ہے۔ جبکہ ان دونوں ملکوں کے رویوں کو بھی دنیا دیکھ رہی ہے۔ ایک طرف اسرائیل ایران جنگ عارضی طور پر رُکی ہوئی ہے ، دوسری طرف اسرائیل و حماس اور روس ، یوکرین جنگ اپنے عروج پرہے۔جبکہ بھارت‘ پاکستان‘ تھائی لینڈ‘ کمبوڈیا کے درمیان تناؤ ہے۔ ابھی تک ان کے درمیان امن کی کوئی ٹھوس بنیادقائم نہیں ہورہی ہے۔ چونکہ 2025 کے امن کے نوبل انعام کا ابھی تک اعلان نہیں ہوا ہے لیکن 2026 کے لیے دعویٰ کرنے کے کارڈز کا آغاز ہو چکا ہے۔ عالمی ایوارڈ حاصل کرنے کا حقدار صرف وہی شخص ہے جو اپنے کام کے باوصف اس کی بات کرتا ہے نہ کہ بذاتِ خوداپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھ کر دنیا سے اس کی مانگ کرتا ہےاور خود ہی اسے دینے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ اگر ہم ٹرمپ کو ممکنہ نوبل امن انعام 2026 کے حوالے سے جاری بحث کے بارے میں بات کریں تو بارود کے موجد اور سویڈش صنعت کار الفریڈ نوبل کی وصیت میں کہا گیا ہے کہ امن کا نوبل انعام اس شخص کو دیا جانا چاہیے، جس نے قوموں کے درمیان بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے سب سے زیادہ یا بہترین کام کیا ہو، اسرائیل اور پاکستان کی جانب سے اس ایوارڈ کے لیے ڈونالد ٹرمپ کی نامزدگی کے بعد اس پرسوشل میڈیا پر کافی بحث چل رہی ہے کہ یہ ایوارڈ کس کو دیا جائے ؟ یہ اعزاز اب تک چار امریکی صدور کو مل چکا ہے، جن میں تھیوڈور روزویلٹ، ووڈرو ولسن، جمی کارٹر اور باراک اوباما شامل ہیں۔ اگر ٹرمپ کو نوبل انعام ملتا ہے تو وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پانچویں امریکی صدر ہوں گے۔ خود نوبل انعام کی ویب سائٹ کا خیال ہے کہ کچھ شخصیات جنہوں نے امن انعام حاصل کیا ہے وہ ’’انتہائی متنازعہ سیاسی کارکن‘‘ ہیں، اس سے بین الاقوامی یا قومی تنازعات کی طرف بھی عوام کی توجہ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر اوباما کو یہ ایوارڈ صدر بننے کے چند ماہ بعد ہی ملا، اس پر 1994میں ایک رکن شیمون پرائیس کے ساتھ اشتراک کیا گیا تھا۔ پیریز اور یتزاک رابن اب 2026 کے لیے اس ایوارڈ کے لئے نامزد ہونے کے بعد پُرجوش ہیں، انھوں نے اس نامزدگی کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم کی تعریف بھی کی، ٹرمپ نے فروری میں بینجمن سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ وہ ہمیں امن کا نوبل انعام نہیں دیں گے، جو کہ بہت غلط بات ہے۔ جون میں ایران،اسرائیل جنگ سے قبل بھی اسرائیل نے ٹرمپ کو 2018، 2020 اور 2021 میں امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا تھا۔جبکہ 8 جولائی کو ایک ریلی میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’’ہم اس معاہدے پر دستخط نہیں کر رہے ہیں جو کہ امن کے لیے بہت سی کوششیں کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی کوششوں کا نتیجہ ہے، یہ وہ کام ہیں جو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا، آپ جانتے ہیں کہ یہ ایک شاندار بات ہے۔‘‘ امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ ’’میں یہ بات تکبر سے نہیں کہہ رہا، بلکہ مجھے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا، اب مجھے بتانا ہوگا کہ یہ بہت بڑی بات ہے اور دوسرے نیٹ ورکس اور زیادہ تر خبروں نے اس کی کوریج نہیں کی، کیا آپ سوچ سکتے ہیں؟ جب اوباما اقتدار میں آئے تو انہوں نے کہا، ‘ہم انہیں امن کا نوبل انعام دینے والے ہیں، جس پر اوباما نے لفظی طور پر کہا، ’’میں نے کیا کیا؟ میں نے کچھ نہیں کیا، اس نے آٹھ سال تک کچھ نہیں کیا، لفظی طور پر۔’’ ٹرمپ نے کہا کہ میں نے چند ہفتوں میں اوبامہ کو نوبل انعام دے دیا ہے۔
قارئین ! اگر ہم نوبل امن انعام اور ٹرمپ کی جلد بازی کی بات کریں تو نوبل انعام دنیا کے معتبر ترین اعزازات میں سے ایک ہے، یہ سویڈش سائنسدان الفریڈ نوبل کی وصیت سے قائم ہوا، نوبل انعام کی چھ کیٹیگریز ہیں، جن میں امن کا نوبل انعام بھی شامل ہے، باقی پانچ نوبل پرائز کیٹیگریز، طبیعیات، معاشیات ، سائنس اور دیگر ادب و اقتصادی علوم شامل ہیں۔ ناروے کی نوبل کمیٹی اس ایوارڈ کے فاتح کا فیصلہ کرتی ہے، تاہم نامزدگی کی آخری تاریخ 31 جنوری ہے، اس لیے نیتن یاہو کی اس نامزدگی کو 2025 کے لیے نہیں بلکہ 2026 کے ایوارڈ کے لیے سمجھا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کی جلد بازی کی کچھ وجوہات: (1) ٹرمپ اکثر سابق صدر براک اوباما کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جنھوں نے دس ماہ کے اوائل میں نوبل انعام جیتنے کے لیے اپنے آپ کو نامزد کیا تھا۔ وہ اوباما کی کامیابی کو پیچھے چھوڑنا چاہتا ہے۔ (2) ٹرمپ نے اپنے صدارتی دور میں بہت سی متنازعہ پالیسیاں اپنائی تھیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ان کی شبیہ کو داغدار ہوگئی ہے۔ امن کا نوبل انعام انہیں ایک ’’امن ساز‘‘ کے طور پر پیش کرنے کا ایک بہترین موقع فراہم کرسکتا ہے۔اور ان کی شبیہ کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ (3) 2026 کے صدارتی انتخابات میں، نوبل امن انعام ٹرمپ کو ایک مضبوط امیدوار کے طور پر پیش کرنے کا ایک اہم عنصر ہو سکتا ہے۔ اس ایوارڈ سے انہیں عوام میں ایک مقبول لیڈر کے طور پر قائم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ (4) ٹرمپ نے کئی بار دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کو روکنے، اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان امن قائم کرنے اور دیگر ممالک میں تنازعات کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ امن کا نوبل انعام انہیں ان دعوؤں کو ثابت کرنے اور بین الاقوامی سطح پر پہچان حاصل کرنے کا بہترین موقع فراہم کرے گا۔ تاہم بہت سے لوگ امن کے نوبل انعام کے لیے ٹرمپ کی کوششوں پر سوال اٹھا رہے ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے واقعی امن کے لیے کوئی ٹھوس کام کیا ہی نہیں اور ایوارڈ کے لیے ان کی کوششیں محض ایک دھوکہ ہے۔ کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی تنازعات کو حل کرنے کے بجائے انہیں فروغ دیتی ہے۔لہٰذا اگر ہم مندرجہ بالا تفصیلات کا مطالعہ اور تجزیہ کریں تو پتہ چلے گا کہ امن کے نوبل انعام کی خواہش، ٹرمپ کی جلد بازی، قیام امن کے دعووں کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں،کے پیش نظراُس کے لئے راستہ آسان نہیں ہے۔ 2025 کے امن کے نوبل انعام کا ابھی اعلان نہیں ہوا، لیکن 2026 کے لیے دعویٰ کرنے کے کارڈز شروع ہو گئے ہیں، عالمی ایوارڈ (نوبل یا کوئی اور) حاصل کرنے کا حقدار صرف وہی ہے جو عالمِ انسانیت،دنیائے امن،ہر ایک کی سلامتی کے لئے کام کرتا ہے،اُسے بذات خود انعام مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اس کی مانگ اٹھتی ہے اور ایوارڈ اس کے پاس چلاآتا ہے۔
(رابطہ ۔ 9359653465)
[email protected]