مختار احمد قریشی
آج کی جدید دور کی بہو اکثر اپنی زندگی کو صرف اپنے اصولوں کے مطابق گزارنے کی خواہاں ہوتی ہے۔ جب کوئی لڑکی کسی خاندان میں بہو بن کر آتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس گھر کے ماحول کو سمجھے، اس کی قدروں کا احترام کرےاور اپنے رویے میں نرمی و لچک پیدا کرے تاکہ گھر کا ماحول خوشگوار اور ہم آہنگی پر مبنی ہو۔ بدقسمتی سے کچھ ماڈرن بہوئیں سسرال والوں سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ اس کی ہر بات مانیں، اس کے مزاج کے مطابق چلیں اور اس کے اندازِ زندگی کو اپنائیں، جو کہ عملی طور پر ناممکن اور غیرمنصفانہ بات ہے۔ ایسی بہو نہ صرف اپنے شوہر کو ذہنی دباؤ میں ڈالتی ہے بلکہ شریف النفس ساس، سسر اور دیگر رشتہ داروں کو بھی اذیت میں مبتلا کرتی ہے۔ اگر سسرال والے کسی بات پر مشورہ دیں یا کسی غلطی کی نشاندہی کریں تو جواب میں بہو اکثر کہتی ہے، ’’میں ابھی چھوٹی ہوں‘‘ یا پھر سسرالیوں پر الزامات لگاتی ہے کہ وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ اس طرح کی ذہنی اور جذباتی چالاکیاں نہ صرف گھر کی فضا کو خراب کرتی ہیں بلکہ ایک خوبصورت رشتے کو کڑواہٹ میں بدل دیتی ہیں۔
یاد رکھنا چاہیے کہ بیٹی کی طرح بہو بھی گھر کی رونق ہوتی ہے، اگر وہ چاہے تو پورے خاندان کو محبت، عزت اور خوشیوں کے رشتے میں باندھ سکتی ہے۔ ہر رشتہ قربانی، ایثار، صبر اور خلوص کا متقاضی ہوتا ہے، خصوصاً سسرال جیسے نازک رشتے۔ اگر بہو اپنے دل میں عاجزی، محبت اور درگزر کا جذبہ رکھے تو گھر جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ صرف ظاہری جدیدیت پر نہ چلے بلکہ اخلاقی بلندی، صبر، حیا اور کردار کی پختگی کو اپنائے۔ دنیاوی فیشن اور خودغرضی سے زیادہ اہم رشتوں کی مضبوطی اور نرمی ہے۔ بہو کو اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی میں توازن پیدا کرنا چاہیے تاکہ سسرال میں نہ صرف اس کی عزت ہو بلکہ وہ خاندان کے دلوں میں گھر بھی کر جائے۔ سسرال والوں کو بھی چاہیے کہ وہ نئی بہو کو عزت دیں، سمجھیں اور اسے وقت دیں تاکہ وہ ماحول سے مانوس ہو سکے۔ لیکن اگر کوئی بہو مسلسل ذہنی تشدد اور چالبازیوں سے گھر کا سکون برباد کرے تو اس پر بات کرنا، اس کی اصلاح کی کوشش کرنا اور درکار اقدام اٹھانا بھی ضروری ہے تاکہ باقی خاندان کے افراد کا ذہنی سکون بحال رکھا جا سکے۔
ایک باشعور اور مہذب بہو کے اندر سب سے اہم خوبی برداشت اور سلیقہ ہوتا ہے۔ وہ ہر رشتے کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے، ساس کو ماں کا درجہ دیتی ہے، سسر کی عزت ماں باپ کی طرح کرتی ہے اور نند و دیور کو بھائی بہنوں کی طرح مانتی ہے۔ لیکن جب جدید تعلیم یافتہ یا حد سے زیادہ خودمختار ذہن رکھنے والی بہو صرف اپنے حقوق کی بات کرے اور دوسروں کے جذبات و احساسات کو نظرانداز کرے تو گھر کا سکون تباہ ہونے لگتا ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بحث کرتی ہے، شوہر کو سسرال سے دور کرنے کی کوشش کرتی ہے اور خاندان میں دوریاں پیدا کرنے لگتی ہے۔ اگر کبھی شوہر یا ساس کچھ سمجھانے کی کوشش کریں تو وہ فوراً اپنے ماں باپ کو بیچ میں لاکر کہتی ہے، ’’مجھے تنگ کیا جا رہا ہے‘‘ یا ’’مجھے سسرال میں قبول نہیں کیا گیا۔‘‘اس طرزِ عمل سے خاندان میں بدگمانیاں بڑھتی ہیں اور اکثر نوبت علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے۔
یاد رکھیں، ہر رشتہ دونوں طرف کے ایثار سے ہی مضبوط ہوتا ہے۔ صرف بہو کا قصور کہنا یا صرف سسرال کو ظالم کہنا انصاف نہیں بلکہ ہر فرد کو اپنا کردار نبھانا ہوتا ہے۔ ایک اچھی بہو وہی ہوتی ہے جو اپنے سسرال کو اپنی نئی دنیا سمجھے اور اس میں محبت کے رنگ بھردے۔ لیکن اگر وہ صرف شکایتیں کرے، اپنے لباس، سیر و تفریح، سوشل میڈیا اور ذاتی آزادی کو ہی اہم سمجھے اور خاندان کے نظم و ضبط کو نظرانداز کرے تو اس سے نہ صرف خاندان متاثر ہوتا ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ گھر کو توڑنے والی نہیں، جوڑنے والی بنیں۔ سسرال میں ایک ماں جیسا کردار اپنائیں تاکہ کل ان کی بیٹیاں بھی بہو بن کر عزت پائیں۔اسلام میں ہر فرد کے حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سسرال کے ساتھ اچھا سلوک اور احترام کیا جائے۔ شوہر کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کو عزت دے اور بیوی کا فرض ہے کہ وہ سسرال کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔اگر ہم معاشرتی حوالے سے بات کریں تو ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب بیوی سسرال میں آتی ہے تو اس پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔ وہ نہ صرف شوہر کی زندگی کی ساتھی ہوتی ہے بلکہ ساس، سسر، نند، دیور اور دیگر خاندان کے افراد کے ساتھ بھی اپنے رشتہ کو بہتر بناتی ہے۔ جب ایک ماڈرن بہو اپنے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے سسرال کے دوسرے افراد کو نظرانداز کرتی ہے یا انہیں دباؤ میں لاتی ہے تو اس کا اثر پورے خاندان پر پڑتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں اگر ایک فرد مسلسل اپنا حق جتانے کی کوشش کرے اور باقی لوگوں کی عزت و احترام کو کم کرے تو یہ حالات مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔
ایک صحت مند سسرال کے ماحول کی بنیاد حسن سلوک، صبر، برداشت اور احترام پر ہوتی ہے۔ اگر بہو اور سسرال والے ایک دوسرے کی باتوں کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں، تو کئی مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ بہو کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ سسرال میں محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک مکمل خاندان کا حصہ بن کر زندگی گزار رہی ہے۔ سسرال والے بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ نئی بہو کو اپنے خاندان کا حصہ بننے کا موقع دیں، تاکہ وہ اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہو سکے اور اپنا کردار درست طریقے سے ادا کر سکے۔
سسرال میں ہر فرد کا ذاتی تجربہ اور زندگی کے اصول مختلف ہوتے ہیں، لیکن اگر یہ سب ایک دوسرے کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں تو ایک بہتر اور پُرامن ماحول قائم ہو سکتا ہے۔ بہو کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ سسرال کا احترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا صرف فرض نہیں بلکہ اس کی شخصیت کو بھی نکھارنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
اگر ہم معاشرتی طور پر اس بات کو تسلیم کر لیں کہ سسرال میں موجود ہر فرد کی اہمیت ہے اور سب کے حقوق کا احترام کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں بہت ساری پیچیدگیاں حل ہو سکتی ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی محبت، عزت اور احترام میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ ہر فرد اپنے حقوق کا بھرپور طریقے سے تحفظ کر سکے اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد کے حقوق کی بھی پاسداری کی جا سکے۔ماڈرن بہو کو یہ سمجھنا ہوگا کہ خاندان کا ماحول اور اس کے مسائل صرف انفرادی نہیں ہوتے بلکہ اجتماعی ہوتے ہیں۔ ایک کامیاب اور خوشحال گھرانے کی بنیاد اسی بات پر ہوتی ہے کہ تمام افراد ایک دوسرے کی حمایت کریں، ایک دوسرے کا احترام کریں اور ہر کسی کے حقوق کی پاسداری کریں۔
رابطہ۔808240300
[email protected]