بلال فرقانی
سرینگر// کشمیر میں شدید گرمی کی لہر کے باعث تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کا فقدان والدین، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کیلئے تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ گرمی کی شدت کے پیش نظر سکول وںکے اوقات کار میں تبدیلی نے سرکاری اور نجی دونوں تعلیمی اداروں کے بنیادی ڈھانچے کی ابتر صورتحال کو بے نقاب کر دیا ہے۔ وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ ’’یہ کشمیر ہے، امریکہ نہیں؛ ہمیں موسم کے مطابق چلنا پڑے گا،‘‘ لیکن زمینی حقائق غفلت اور ناکافی سہولیات کی ایک سنگین تصویر پیش کرتے ہیں۔
بھاری فیس اور ناقص سہولیات
والدین نجی سکولوں کی جانب سے وصول کئے جانے والے بھاری فیس پر سوال اٹھا رہے ہیں، خاص طور پر سالانہ چارجز، جو بظاہر سکول میں سہولیات کے لیے جمع کیے جاتے ہیں۔ کسی سکول میں سالانہ 5 ہزار روپے سے زیادہ سالانہ چارجز وصول کئے جاتے ہیں تو کسی سکول میں پانچ ہزار سے زیادہ دس ہزار تک بھی وصولی کی جاتی ہے۔والدین کا کہنا ہے کہ سکولوں میں بنیادی سہولیات کیلئے ان فنڈس کے استعمال کے دعوئوں کے باوجود،سکولوںمیں کوئی خاص بہتری نہیں دیکھی جاتی۔ کلاس روم اکثر بچوں سے بھرے ہوتے ہیں، جہاں 30 سے 40 بچے ایک چھوٹی سے کمرے میں ٹھونسے جاتے ہیں، جہاں شدید گرمی سے چھٹکارا پانے کیلئے ائر کنڈیشن کا کوئی دور دور تک انتظام نہیں حتیٰ کہ کہیں کسی سکول میں ایک پنکھے کا انتظام ہوتا ہے۔ زیادہ تر سکولوں میں ایئر کولر اور ٹھنڈے پانی کا انتظام بھی نہیں ہے۔ پچھلے کئی برسوںسے موسمی تبدیلیوں اور سالانہ فیسوں میں اضافے کے باوجود، سکول اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ مشکل حالات صرف طلباء کے لیے نہیں بلکہ تدریسی اور غیر تدریسی عملے کے لیے بھی ہیں۔سرکاری سکولوں کی حالت اور بھی تشویشناک ہے، جہاں پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ بہت سے سرکاری سکولوں میں بجلی کے کنکشن ہی نہیں ہیں، جس کی وجہ سے پنکھے یا دیگر کولنگ ڈیوائسز نصب کرنا ناممکن ہے۔ ایسے سکولوں میں بالٹیوں میں پانی جمع کرکے بچوں کو پلایا جاتا ہے، جس سے اکثر ان کی صحت خراب ہو جاتی ہے۔‘‘
چونکا دینے والے اعدادوشمار
سرکاری اعدادوشمار جموں و کشمیر میں تعلیمی انفراسٹرکچر کی حیران کن حقیقت کو بے نقاب کررہے ہیں۔ جموں و کشمیر میں 22,422 فعال سکولوں میں سے، 10,788 کشمیر وادی کے 10 اضلاع میں واقع ہیں۔ ان میں 5,710 پرائمری، 3,894 مڈل، 805 ہائی اور 379 ہائر سیکنڈری اسکول شامل ہیں۔ کشمیر میں 1,500 سے زیادہ سکولوں میں بجلی کی وائرنگ موجود ہے لیکن ابھی تک بجلی کے کنکشن فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔ صرف 8,918 سکول سروس لائنوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ مزید برآں، سالانہ تعلیمی رپورٹ 2024 کے مطابق، جموں و کشمیر کے 10 فیصد سرکاری سکولوں میں بجلی جیسی بنیادی سہولت کا فقدان ہے۔پینے کے پانی کی صورتحال بھی انتہائی خراب ہے۔ مارچ 2025 تک، اسمبلی میں پیش کیے گئے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، جموں و کشمیر کے 8,807 سرکاری سکولوں میں پینے کے پانی کی سہولت موجود نہیں ہے، جو لاکھوں طلباء کی صحت اور تعلیم پر براہ راست اثر ڈال رہا ہے۔حکومت کی جانب سے رمسا، روسا اور سمگر شکشا جیسے منصوبوں کے تحت بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے دعوئوں کے باوجود، زمینی سطح پر بہتری کی رفتار سست اور غیر متوازن نظر آتی ہے۔
چھٹیاں کوئی حل نہیں
ماہرین تعلیم اور والدین کا کہنا ہے کہ چھٹیوں میں توسیع، شدید موسمی حالات کا پائیدار حل نہیں ہے۔ وہ ایسے مضبوط بنیادی ڈھانچے کی وکالت کررہے ہیں جو گرمی کی لہروں اور شدید سردیوں دونوں کا مقابلہ کر سکے۔ جہاں سرکاری سکولوں کو مرکزی امداد ملتی ہے وہیں نجی سکول بھی بھاری فیس وصول کرنے کے باوجود مناسب سہولیات فراہم کرنے میں پیچھے ہیں۔یہاں محکمہ تعلیم اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں دیا جاسکتا ۔ زیادہ گرمی ہو تو سکول بند کئے جاتے ہیں لیکن سکولوں میں گرمی سے نجات دلانے کیلئے ضروری سہولیات کی فراہمی کی طرف توجہ نہیں جاتی۔ اسی طرح سردیاں شروع ہوتے ہی گرمی کا انتظام نہیں کیا جاتا بلکہ چھٹیاں کر کے متبادل تلاش کیا جاتا ہے۔والدین سکولوں کی رجسٹریشن اور تجدید کے دوران قواعد و ضوابط کو نافذ کرنے میں حکومت کی سستی پر سوال اٹھا رہے ہیں، جو ضروری سہولیات کی دستیابی کو لازمی قرار دیتے ہیں۔انہوںنے بتایا، ’’محکمہ تعلیم کو ضروری سہولیات کی دستیابی کی جانچ پڑتال کیلئے وقتاً فوقتاً سکولوں کا معائنہ کرنا ہوتا ہے، لیکن یہ سلسلہ کئی برسوں سے رک گیا ہے‘‘ ۔ عملیاتی طریقہ کار کے مطابق، اگرسہولیات موجود نہ ہوں تو سکول کی رجسٹریشن معطل رکھی جا تی ہے، لیکن ایسا اب کبھی سننے میں نہیں آتا ہے۔پچھلے دنوں شدید گرمی کے دوران کئی پرائیویٹ سکولوں نے والدین کو لوٹنے کا عمل شروع کردیا اور بچوں سے کولنگ چارجزجمع کرنے کے حکم نامے جاری کردئے۔ والدین کا کہنا ہے کہ وہ سالانہ فیس کے نام پر ہزاروں روپے جمع کرتے ہیں جن میں سکولوں کا لیبارٹری فنڈ ، کمپوٹر فیس ، بجلی فیس ، واٹر ٹیکس ، سپورٹس فنڈ ، ریڈ کراس فنڈ اور دیگر ضروری فنڈس شامل ہیں لیکن جب بچوں کو سہولیات فراہم کرنی کی باری آتی ہے تو والدین سے دوبارہ رقومات بٹور لی جاتی ہیں۔
سول سوسائٹی برہم
جموں و کشمیر سول سوسائٹی فورم کے چیئرمین عبدالقیوم وانی نے تعلیمی اداروں کی موجودہ صورتحال کو ’ناقابل بیان‘ قرار دیا۔ انہوں نے نجی سکولوں پر والدین سے فیسوں کے نام پر ’لوٹنے‘ کا الزام لگایا اور کہا کہ شدید سردی کے موسم میں طلباء اور عملے کو صفر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ انہوں نے روشنی ڈالی کہ دیہی علاقوں کے سکولوں میں اکثر بجلی اور صاف پانی دونوں کی کمی ہوتی ہے، جس سے بچے گرمی کی لہر سے غیر محفوظ رہتے ہیں۔ وانی کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں کے70فیصد سکولوں میں بجلی اور50فیصد میں صاف پانی کی دستیابی نہیں۔انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں سردیوں اور گرمی سے طلاب کیبچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وزیر تعلیم کا جواب
وزیر تعلیم سکینہ ایتو نے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، “ہم سب کشمیری ہیں؛ یہاں کا موسم امریکہ جیسا نہیں بلکہ جموں و کشمیر کا ہے۔ ہمیں اپنے فیصلے بھی موسم کے مطابق کرنے ہوں گے۔ ہم اسکولوں میں صحت کو ترجیح دیتے ہوئے 28 ہزار کلاس رومز میں اے سی اور ہیٹنگ کا انتظام نہیں کر سکتے۔‘‘ انکا کہنا تھا کہ ہرایک اسکول میں ائر کنڈیشنر نصب کرنا ناممکن ہے۔اس معاملے پر ڈائریکٹر تعلیم کشمیر سے بار بار ٹیلی فون پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کے باوجود رابطہ قائم نہ ہوسکا۔