میر شوکت پونچھی
جب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں، تو ہر صفحہ جیسے کوئی پرانی سی داستان بن کر جھلملاتا ہے۔کبھی یہ داستان وادیوں کی چاندنی میں ڈوبی ہوتی ہے، کبھی سیاسی ایوانوں کی چکاچوند میں چمکتی ہے اور کبھی عوام کے سانسوں اور قہقہوں کے ملے جلے نغموں میں گونجتی ہے۔دفعہ 370کی کہانی ایسی ہی ہے — ایک آئینی گوہر، جو کبھی جموں و کشمیر کے سینے کی زینت تھا، کبھی سیاسی بازی کا ذرہ بنا اور کبھی ایک ایسی چٹان کہلایا جس کے پیچھے خوابوں کا خزانہ چھپا تھا۔ مگر جب وہ چٹان ہٹائی گئی تو نہ گوہر ملا، نہ سکون، بس ایک باریک دھول کا بادل اور ایک ایسی ہنسی جو جموں کے بازاروں سے لے کر کشمیر کی وادیوں تک گونجتی ہے۔ یہ ہنسی نہ فتح کی خوشی سے ہے، نہ شکست کے غم سے، بلکہ اس عجیب سی کیفیت سے جو خواب کے چور ہونے اور نئے وعدوں کے جھن جھن بننے سے جنم لیتی ہے اور اب، اس داستان میں ایک نیا رنگ آیا، — ایک تازہ انتظامی موڑ، جو اس تماشے کو چٹپٹا بناتا ہے، جیسے کوئی باورچی سادہ سی کھچڑی میں ذرا سی مرچ اور ہینگ ڈال کر کہے’’اب تو ذائقہ چھا جائے گا!‘‘
تصور کریں، ایک خطہ جو جیسے کوئی جادوئی آئینہ ہو۔ کشمیر کی وادی میں برف سے لدے پہاڑ، جھیلوں میں ٹھہری چاندنی اور سیبوں کی مہک، جیسے کوئی شاعر کی راتوں سے چوری کیا خواب۔ جموں کے بازاروں میں رنگ برنگی چوڑیاں، مندروں کی گھنٹیاں اور لوگوں کی چہل پہل، جیسے کوئی پرانی کہانی کا رنگین صفحہ اور لداخ کے بلند و بالا صحرا، جہاں ہوا سرگوشیاں کرتی ہیں اور خاموشی اپنا ہی ایک گیت گاتی ہے۔ یہ خطہ محض زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک ایسی جنت ہے جہاں ہر پتھر ایک راز چھپائے ہے، ہر جھرنا ایک سرگوشی سناتا ہے اور ہر چنار یا دیودار صدیوں کی خاموش گواہی دیتا ہے۔ اس جنت کے سینے میں ایک خواب بسا تھا — ،دفعہ 370کا خواب۔
یہ کوئی سادہ قانون نہ تھا بلکہ ایک ایسی ریشمی چادر تھی جو جموں و کشمیر کو باقی ہندوستان سے جدا رکھتی تھی، جیسے کوئی پرانا صندوق جس میں دادی کی وصیت بند ہو،’’اسے کبھی مت کھولنا، یہی تمہاری آبرو ہے!‘‘ یہ چادر ہر باشندے کے لیے ایک احساس تھی — ایک ایسی خودداری جو شاید جیب نہ بھرتی تھی، مگر دل کو ٹھنڈک دیتی تھی، چاہے وہ سری نگر کی گلیوں میں چائے کا کپ تھامے ہو، جموں کے بازار میں سودا سلف خریدتا ہو یا لداخ کے صحرا میں اپنے یاک کے ساتھ چلتا ہو۔
مگر یہ چادر اتنی بوجھل تھی کہ سانس لینا دوبھر کرتی تھی اور اتنی فرسودہ کہ اس کے دھاگے کب کے چھیل گئے تھے۔ دلی کی سرکار اسے دیکھتی تھی جیسے کوئی پرانا موتی جو چمکتا تو ہے مگر نہ روشنی پھیلاتا ہے نہ گرمی دیتا ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے یہ ان کی شناخت تھی، — ایک الگ پرچم، ایک الگ قانون اور ایک الگ شان۔ یہ احساس کہ وہ منفرد ہیں، کہ ہندوستان کا باقی حصہ ان کی طرف حسرت سے دیکھتا ہے، چاہے سری نگر میں راشن کی دکان پر لائن لمبی ہو، جموں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہویا لداخ میں انٹرنیٹ جیسے کوئی بھاگتا ہرن کبھی کبھار ہی دکھائی دے۔ حقیقت اس خواب سے کوسوں دور تھی۔ سری نگر کی گلیاں یا تو سونی پڑی تھیں یا خوف کے سائے سے بوجھل۔ جموں کے بازاروں میں چہل پہل تو تھی مگر مہنگائی کی مار بھی کم نہ تھی۔ لداخ کے صحرا میں زندگی جیسے ایک پرانا گیت، جس کا سُر کب کا بھول گیا تھا، مگر بجتا اب بھی تھا۔
دلی کے ایوانوں میں یہ دفعہ ایک جادوئی عصا تھی۔ جب حالات موافق ہوتے، سرکار سینہ تان کر کہتی ،’’دیکھو، ہم نے کیا جادو کیا!‘‘ اور جب حالات الٹ ہوتے تو بس ایک کندھا جھٹک کر کہا جاتا،’’ارے، یہ تو اسی دفعہ 370کی شرارت ہے!‘‘ یہ دفعہ ہر انتخابی منچ پر لہرائی جاتی اور ہر بار تالیاں گونجتیں، چاہے سری نگر میں سڑکیں بند ہوں، جموں میں بجلی جاتی رہے یا لداخ میں مواصلات کا نام و نشان نہ ہو۔ یہ ایک تماشا تھا، جس کا منچ دہلی سے لے کر جموں و کشمیر کے کونے کونے تک پھیلا تھا۔ تماش بین عوام تھے — کبھی ہاتھ بجا کر جھوم اٹھتے، کبھی ماتھا پکڑ کر سوچ میں ڈوب جاتے اور کبھی بس حیرت سے پوچھتے،’’یہ سب کیا ہو رہا ہے؟‘‘ دلی والوں کے لیے یہ ایک سیاسی کھلونا تھا، جسے جلسوں میں چمکایا جا سکتا تھا۔ جموں و کشمیر والوں کے لیے یہ ایک خواب تھا جو کبھی فخر سے دل بھر دیتا تھا اور کبھی مایوسی سے آنکھیں۔
پھر ایک دن، جیسے کوئی کہانی اپنے عروج پر پہنچ کر یکدم پلٹ جاتی ہے، جہاں نغموں کی لے تیز ہوتی ہے اور منظر بدل جاتا ہے، سرکار نے اعلان کیا’’اب بس، یہ تماشا ختم!‘‘
اگست 2019 کی ایک صبح، جب وادی میں سناٹا چھایا تھا، جموں کے بازار خاموش تھے اور لداخ کے صحرا میں ہوا بھی جیسے تھم سی گئی تھی، دفعہ 370 کو آئین کے زریں صندوق سے نکال کر چکنا چور کر دیا گیا۔ جیسے کوئی پرانا قلعہ ڈھایا جائے اور سب کے دل میں یہ اُمید جاگے کہ اس کے پیچھے گوہرِ نایاب چھپا ہو گا، مگر جب دھول کے بادل بیٹھے تو بس ملبہ، کچھ پرانے پتھر اور ایک عجیب سی خاموشی۔ یہ خاموشی کوئی معمولی نہ تھی — جیسے سری نگر کے چناروں نے سانس روک لی ہو، جموں کے مندروں کی گھنٹیاں تھم گئی ہوں اور لداخ کے صحرا نے اپنی سرگوشیاں بند کر دی ہوں۔ سرکار نے بلند آواز میں کہا،’’اب یہ خطہ ہمارا ہے، پورے طور پر ہمارا!‘‘
سری نگر نے سرگوشی کی ،’’تو کیا پہلے یہ ہمارا نہ تھا؟‘‘ جموں نے پوچھا،’’اب کیا بدلے گا؟‘‘ اور لداخ نے خاموشی سے دیکھا، جیسے کوئی پرانا سادھو جو سب کچھ سمجھتا ہو مگر بولتا نہ ہو۔ جواب میں بس ایک عجیب سی گھن گرج تھی جو آسمان سے اترتی تھی اور گلیوں، بازاروں اور صحراؤں میں ایک ایسی خاموشی جو نہ خوشی سے تھی، نہ غم سے بلکہ اس حیرت سے جو خواب کے اچانک چور ہونے سے جنم لیتی ہے۔
سرکار نے وعدوں کا ایک نیا ساز بجایا،’’اب ترقی کے جھرنے بہیں گے! سرمایہ کاری کے سمندر امڈیں گے! یہ خطہ اب دبئی کی چمک سے جگمگائے گا!‘‘ مگر سری نگر کا وہ لڑکا، جو اب بھی نوکری کی قطار میں کھڑا ہے، حیران ہے۔ وہ پوچھتا ہے،’’ترقی کہاں چھپی ہے؟‘‘ جموں کا دکاندار جو مہنگائی کی مار سہتا ہے، سر کھجاتا ہے،’’یہ سمندر کہاں ہے؟‘‘
اور لداخ کا چرواہا، جو اپنے یاک کے ساتھ صحرا میں چلتا ہے، سوچتا ہے،’’یہ چمک تو ہمارے برفیلے پہاڑوں میں پہلے ہی تھی!‘‘ جواب میں کوئی کہتاہے،’’اب تمہاری زمین کوئی گجرات سے آ کر خرید سکتا ہے!‘‘ سری نگر والا ہنستا ہے، کیونکہ زمین تو اس کے پاس ہے ہی نہیں۔جموں والا کندھے اچکاتا ہے، کیونکہ اس کی دکان پر پہلے ہی قرض کا بوجھ ہے اور لداخ والا مسکراتا ہے، کیونکہ اس کے صحرا کو کون خریدے گا؟ وہ سب سوچتے ہیں،’’ اگر یہ زمین بیچنے کی بجائے دو وقت کی روٹی پکاتی رہے تو اس سے بہتر کیا ہو گا؟‘‘
اسے بتایا گیا،’’اب تم باقی ہندوستان کے رنگ میں رنگ گئے ہو!‘‘
مگر وہ سوچتےہیں،’’ اگر یہ رنگ مہنگائی کی چھاؤں، بیروزگاری کی دھوپ اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سایہ ہے تو اس’’خاص‘‘ ہونے کی کیا قیمت تھی؟ دلی والوں نےکہا کہ’’دیکھو، ہم نے تمہیں اپنے قریب کر لیا!‘‘مگر سری نگر کا چائے فروش، جو اب بھی اپنی کیٹلی گرم کر رہا ہے، پوچھتاہے،’’بھائی، چائے کا پیالہ سستا کیوں نہیں ہوا؟‘‘ جموں کا طالب علم، جو امتحان کے کاغذات بھرتا ہے، سوچتا ہے،’’اگر دلی قریب ہے تو امتحان کی تاریخ کیوں ملتوی ہے؟‘‘ اور لداخ کا گوالا جو اپنے جانوروں کو چراتا ہے، ہنستا ہے،’’دلی قریب ہو یا دور، ہمارے یاک کو کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘اور پھر اس ڈرامے میں ایک نیا موڑ آیا، — ایک تازہ انتظامی چاشنی! جب دفعہ 370کو توڑا گیا تو جموں و کشمیر کو نہ صرف اپنی’’ خاص‘‘ حیثیت سے ہاتھ دھونا پڑا، بلکہ اسے ایک نئے ڈھانچے کے تابع کر دیا گیا، جیسے کوئی پرانا محل گرا کر اس کی جگہ ایک چمکدار دفتر بنا دیا جائے اور کہا جائے،’’دیکھو، اب یہ جدید ہے!‘‘ مگر دفتر کے اندر وہی پرانے کاغذات، وہی پرانی قطاریں اور وہی پرانا انتظار۔ سرکار نےکہا،’’اب سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے!‘‘ مگر سری نگر کا چائے فروش مسکراتا ہے،’’ہاتھ تو ٹھیک ہیں، مگر ہمارے پیالوں میں چینی کب ڈلے گی؟‘‘ جموں کا دکاندار پوچھتا ہے،’’یہ نیا دفتر ہے، مگر ہمارا قرض کون اتارے گا؟‘‘ اور لداخ کا چرواہا کندھے اچکاتا ہے،’’ہمارے صحرا کو دفتر کی کیا ضرورت؟‘‘
یہ نیا انتظامی موڑ ایک ایسی سرکس کا ٹکٹ تھا، جس میں سب کو بلایا گیا، مگر’’جوکر‘‘کے علاوہ کوئی نہ آیا۔ سرکار نےکہا،’’اب ترقی کی ریل دوڑے گی!‘‘ مگر ریل کے بجائے بس وہی پرانی گھن گرج آسمان پر گونجتی رہی۔ سری نگر والوں نے پوچھا،’’یہ ریل کہاں ہے؟‘‘ جموں والوں نے کہا،’’ہم تو بس بسوں کے انتظار میں ہیں!‘‘ اور لداخ والوں نے ہنس کر کہا،’’ہمارے صحرا میں ریل کی پٹری کون بچھائے گا؟‘‘ سرکار نےکہا،’’اب دلی تمہارے قریب ہے!‘‘ مگر جب لوگوں نے پوچھا،’’قریب سے کیا ملے گا؟‘‘ تو جواب ملا،’’نئے کاغذات، نئی فائلیں اور نئی قطاریں!‘‘ جیسے کوئی کہے،’’تمہارا گھر اب ہمارے محلے میں ہے!‘‘ مگر محلہ وہی ہے، جہاں بجلی جاتی رہتی ہے، پانی کی ٹونٹی سوکھی رہتی ہے، اور نوکری کا خواب بس خواب ہی رہتا ہے۔
یہ ساری کہانی ایک عظیم تھیٹر ہے، جہاں نہ ہیرو ہے نہ ولن، بس تماش بین ہیں جو کبھی تالیاں بجاتے ہیں، کبھی ماتھا پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ منچ پر ایک آئینی ناٹک کھیلا جا رہا ہے اور پس منظر میں کشمیر کی جھیلوں کی چاندنی، جموں کے بازاروں کی چہل پہل اور لداخ کے صحراؤں کی خاموشی۔ عوام کو کیا ملا؟ وہی جو ہمیشہ ملتا ہے — نئے نعرے، نئی تقاریر اور نئی بحثیں۔ ٹی وی اسٹوڈیوز میں اینکروں نے ایک نیا کھلوناپایا،’’اب یہ خطہ نیا ہے، کیا اب سب بدل جائے گا؟‘‘ پینلسٹ چیخ چیخ کر وہی پرانے جھگڑے دہراتے رہے، جیسے کوئی پرانی فلم کو نئے رنگ میں چلا دیا جائے۔ سوشل میڈیا پر میمز بنے’’پہلے خاص تھے، اب بس سب جیسے ہیں!‘‘ مگر سری نگر میں پیاز کی قیمت وہی رہی، جموں میں اسپتال کے ڈاکٹر غائب رہے اور لداخ میں انٹرنیٹ اب بھی کسی دھندلے خواب جیسا تھا۔
یہ کہانی اگر ایک لطیفے میں سمیٹ لی جائے، تو کچھ یوں ہوگا،’’ ایک آدمی نے اپنے گھر کی پرانی چٹان ہٹائی اور شور مچایا،اب گھر جگمگائے گا!‘‘ پھر اس نے گھر کو ایک نیا نام دیا اور کہا،’’اب تم جدید ہو!‘‘ مگر جب دھول بیٹھی، تو گھر وہی پرانا تھا — بس اب ہوا زیادہ آتی تھی، سردی بھی اور نئے نعرے بھی۔ سری نگر والوں نے پوچھا،’’فائدہ کیا ہوا؟‘‘ جموں والوں نے کہا،’’ہمارا بازار تو وہی ہے!‘‘ لداخ والوں نے ہنس کرکہا،’’ہمارے یاک کو کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ اور سرکار نے کہا،’’دیکھو، اب سب ہمارے ہاتھ میں ہے!‘‘ مگر سب نے مل کر ایک ایسی ہنسی ہنسی، جو نہ خوشی سے تھی، نہ غم سے، بلکہ اس عجیب سے سناٹے سے، جو خواب ٹوٹنے اور نئے نعرے بننے پر چھا جاتا ہے۔
دفعہ 370کی کہانی، اور اب اس پر یہ نیا انتظامی رنگ، ایک ایسی ہنسی ہے جو کشمیر کی جھیلوں سے، جموں کے بازاروں سے اور لداخ کے صحراؤں سے ٹکرا کر واپس لوٹتی ہے۔ یہ ایک خواب تھا — دھندلا سا، جو نیند میں بھی صاف نہ تھا اور جاگنے پر غائب ہو گیا۔ اسے بچانے والوں نے کچھ نہ بچایا، اسے توڑنے والوں نے کچھ نہ جوڑا اور نئے رنگ ڈالنے والوں نے بس ایک نیا نام دیا۔ دلی والوں نے تالیاں بجائیں، کیونکہ انہیں ایک نیا نعرہ مل گیا۔ جموں و کشمیر والوں نے کندھے اچکائے، کیونکہ ان کی چائے اب بھی مہنگی تھی۔ اور عوام؟ وہ بس وہی کر رہے ہیں جو ہمیشہ کرتے ہیں — انتظار۔ انتظار کہ شاید کوئی نیا خواب آئے جو اس بار دھندلا نہ ہو۔ مگر جب تک وہ خواب آئے، سری نگر میں پیاز کی قیمت، جموں میں بجلی کا بل اور لداخ میں انٹرنیٹ کی رفتار وہی رہے گی اور تھیٹر کا پردہ؟ وہ کبھی نہیں گرے گا کیونکہ یہ تماشا ابھی جاری ہے اور چاشنی ابھی تازہ ہے!
(رابطہ۔9906083786)
[email protected]>