یہ امر اطمینان بخش ہے کہ سرکار نے گرمائی تعطیلات کے بعدآج سے سکول کھولنے کا اعلان کیا ہے۔یہ فیصلہ بھی بروقت ہے کہ اب تدریسی عمل میونسپل علاقوں میں صبح 7:30سے 11:30بجے اور غیر میونسپل علاقوں میں8بجے سے12بجے تک ہوگا جبکہ چھٹی سے بارہویں جماعت تک کے طلباء کیلئے دوپہر ایک بجے کے بعد دو گھنٹوںکے آن لائن کلاسز بھی ہونگے تاکہ نقصانات کی بھرپائی ہوسکے ۔اس بات میںکوئی دورائے نہیں کہ سورج آگ اگل رہا ہے اور کشمیر میں گرمی کی شدید ترین لہر جاری ہے۔اب کے کشمیر میں ایسی گرمی پڑ رہی ہے جس کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیاگیا ہوتا تاہم عالمی حدت میں اضافہ اب ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے اور ہمیں بھی یہ مان کر چلنا چاہئے کہ اب کشمیر بھی اس سے اچھوتا نہیں رہا ہے ۔یہاں بھی گزشتہ کچھ برسوں سے مسلسل درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے ۔
موسم کی یہ بےترتیبی اب کوئی نئی با ت نہیں رہی ہے بلکہ اس کیلئےہمیں خود کو تیار کرنا چاہئے تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم کچھ سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں ۔گرمیوں میں شدت کو دیکھ کر چھٹیوں میں اضافہ کوئی حل نہیں ہے کیونکہ اگر ہم یہی فارمولہ استعمال کرتے رہیں تو آگے چل کر ہمیں جموں کی طرح ہی دو دوماہ کی گرمائی تعطیلات کرناپڑیں گی کیونکہ یہاں اسی نوعیت کی گرمی پڑ سکتی ہے۔گرمیوں کیلئے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے جو ہم نہیں کررہے ہیں ۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ کشمیر میں 95فیصد سرکاری و نجی سکول شدید گرمی سے نمٹنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں کیونکہ ان سکولوں میں نہ ہی کراس وینٹی لیشن کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی ہوادار کھڑکیوں کا کوئی بندو بست ۔اس پر ستم ظریفی یہ کہ بیشتر سکولوں میں پنکھے ہی نہیں ہیں ،ائر کنڈیشن کے بارے میں سوچنا ہی گناہ ہے۔سرکاری سکولوں کی حالت انتہائی غیر ہے اور آج بھی سکولوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جہاں بجلی کنکشن میسر نہیں ہے ۔اتنا ہی نہیں ،پانی کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے ۔سرکاری اور نجی ،دونوں طرز کے سکولوں میں محفوظ پانی کا بندوبست نا کے برابر ہے ۔اگر کہیں پانی ہے بھی تو وہ نلوں کا پانی ہے جو فلٹریشن کے بغیر ہے اور جس میں آر او پلانٹ کا دور تک کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔المیہ تو یہ ہے کہ سکولوں میں بچوںکو بیت الخلائوں میں نصب نلوں سے پانی لانے کیلئے مجبور کیاجاتاہے کیونکہ پینے کیلئے پانی کا کوئی انتظام نہیں کیاگیا ہے ۔
جہاں ہم سکول کھولنے کا خیر مقدم کرتے ہیں ،وہیں ہمیں ارباب بست و کشاد اور نجی سکولوں کے منتظمین سے یہ التماس ہے کہ وہ اپنے اداروںکو اس لائق تو بنائیں کہ وہ گرمیوں میں بھی تدریسی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔نجی سکول انیول فیس کے نام پر والدین لوٹ رہے ہیں اور ہزاروں روپے اس مد میں وصول کرتے ہیں لیکن وہ بچوںکو سہولیات دینے سے کترا رہے ہیں۔ایف ایف آر سی اور نظامت تعلیم ،جن کا کام ان سکولوں کی نگرانی ہے ،نے آنکھیں بند کررکھی ہیں اور نتیجہ کے طور پرنجی سکولوں میں بچے سسک سسک کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں اور ان کے والدین کی کوئی سننے والا نہیں ہے ۔اب تو سکولوں نے سردی کا انتظام کرنے کے نام پر اضافی پیسے لینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے حالانکہ یہ پیسہ وہ پہلے ہی انیول فیس میں وصول کررہے ہیں لیکن کسی کی مجال کہ وہ ان سکولوں کی نکیل کس لیں ۔عملی طور ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سکول کسی کے سامنے جوابدہ ہی نہیں ہیں اور یہاں ان کا ہی راج چلتا ہے ۔
آپ گرمائی تعطیلات ختم کرکے تدریسی عمل شروع کریں لیکن اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچوں کی صحت گرمی کی وجہ سے متاثر نہ ہو اور انہیں سکولوں میں وہ سہولیات میسر ہوں جس کے وہ مستحق ہیں۔بچوں کو قربانی کا بکرا نہیںبنا یا جاسکتا ہے۔جہاں تعلیم ضروری ہے ،وہیں بچوں کی سلامتی اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔تعلیم سے انکار نہیں لیکن بچوں کی سلامتی پر سمجھوتہ بھی قبول نہیں۔امید ہے کہ سرکار اس پہلو پرغور ضرور کرے گی ۔اس ضمن میں آنے والے وقت میں سرمائی تعطیلات میں کمی کرکے گرمائی تعطیلات میں اضافہ کرنے پر بھی غور کیاجاسکتا ہے کیونکہ اب زیادہ سردیاں بھی نہیںپڑتی ہیں لیکن بات پھر وہیں پہنچ جاتی ہے کہ پہلے ہمیں اپنے نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں انفرا سٹریکچر کو اس لائق بنانا ہوگا وہ ایسی تبدیلیوں کو عملانے کےلائق بن سکیں۔