یو این آئی
دوحہ // اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان جنگ بندی سے متعلق ہونے والے مذاکرات کسی حتمی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے۔ قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہونے والے اس سفارتی عمل کو امن کی جانب ایک پیش رفت سمجھا جا رہا تھا، لیکن ابتدائی دور کی ناکامی نے امریکا کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔فلسطینی سفارتی ذرائع کے حوالے سے میڈیا رپورٹس مطابق اسرائیلی وفد اگرچہ بات چیت میں شریک ہوا، تاہم اس وفد کو کسی بھی قسم کے معاہدے پر دستخط یا فیصلہ کرنے کے اختیارات حاصل نہیں تھے۔ اس بات نے فلسطینی فریقین اور ثالث ممالک میں مایوسی کو جنم دیا۔ اسرائیلی وفد کی محدود حیثیت نے مذاکرات کو رسمی سطح سے آگے بڑھنے نہیں دیا۔یہ صورت حال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کچھ ہی دن قبل حماس نے قطر اور امریکا کی طرف سے پیش کیے گئے ایک نئے مجوزہ جنگ بندی منصوبے پر مثبت ردعمل دیا تھا۔ اس ردعمل کے بعد یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ دونوں فریق کسی ممکنہ معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی طرف سے جاری بیانات نے بھی فضا کو کشیدہ رکھا۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ حماس کے حالیہ مطالبات اسرائیل کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں، تاہم اسرائیل نے قطر مذاکرات میں شرکت کے لیے ایک اعلیٰ سطح وفد بھیجا، مگر اسے فیصلہ کن اختیارات نہ دینا اس بات کا عندیہ ہے کہ اسرائیلی حکومت فی الحال کسی معاہدے کے لیے تیار نہیں۔قطر مذاکرات کی ابتدائی ناکامی نے امریکی دعوؤں کو ایک مرتبہ پھر مشکوک بنا دیا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک اسرائیل سنجیدہ اور مکمل اختیارات کے حامل وفود کے ساتھ مذاکرات میں شریک نہیں ہوتا، تب تک اس عمل سے کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد ہونا ممکن نہیں۔دوحہ میں موجود سفارتی ذرائع کے مطابق آئندہ چند روز میں مذاکرات کا دوسرا دور متوقع ہے، تاہم یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اسرائیل اپنے موقف میں لچک دکھاتا ہے یا نہیں۔