سبدر شبیر
تاریخِ انسانیت میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے دامن سے نکل کر ابدیت کی علامت بن جاتے ہیں۔ ان میں سب سے روشن، دل سوز اور بصیرت افروز واقعہ میدانِ کربلا کا ہے۔ یہ صرف ایک جنگ یا سانحہ نہیں تھا بلکہ صداقت اور باطل کے درمیان ایک ایسا معرکہ تھا جس نے رہتی دنیا تک حق کی شناخت قائم کر دی۔ اس میں امام حسینؓ، امام حسنؓ کی قربانی کی وراثت کو سینے سے لگا کر میدانِ کربلا میں اُترے اور اپنے خاندان و جانثاروں کے ہمراہ لازوال قربانی پیش کی۔لیکن کربلا کی شروعات امام حسینؓ سے نہیں بلکہ امام حسنؓ کی صلح سے ہوئی۔ امام حسنؓ جو نبی کریمؐ کے بڑے نواسے اور حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ کے صاحبزادے تھے، انہوں نے اس وقت امت کو خونریزی سے بچانے کے لیے ایک انتہائی بلند ظرف فیصلہ کیا۔ انہوں نے خلافت سے دستبردار ہو کر صلح کی تاکہ مسلمانوں کے درمیان جنگ کا دروازہ بند ہو جائے۔ ان کا یہ اقدام ہمیں سکھاتا ہے کہ اسلام میں امن کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ امام حسنؓ نے وقت کے فتنوں کو سمجھا اور اپنے آپ کو اقتدار سے پیچھے ہٹا کر امت کو بچایا۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ اسلام طاقت کے لیے نہیں، حق کے قیام کے لیے ہے۔
جب وقت نے کروٹ بدلی اور یزید جیسے فاسق شخص نے خلافت کو موروثی اور جابرانہ بنا دیا، تب امام حسینؓ نے وہ فیصلہ کیا جس نے قیامت تک کے لیے حق کا پرچم بلند کر دیا۔ امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا، کیونکہ یہ صرف سیاسی انکار نہیں تھا بلکہ یہ دین کی اصل روح کو بچانے کا انکار تھا۔ ان کے انکار میں امت کے ضمیر کی بیداری چھپی تھی۔ انہوں نے واضح پیغام دیا کہ اگر کوئی فاسق، ظالم اور دین دشمن شخص مسلمانوں کا رہنما بن جائے تو اس کے خلاف خاموشی ظلم کی حمایت کے مترادف ہے۔
مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا تک کا سفر، امام حسینؓ کی حق پرستی، استقلال اور عزم کا آئینہ تھا۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بچوں، خواتین، نوجوانوں اور بزرگوں کو ساتھ لے کر یہ بتا دیا کہ حق کے لیے قربانی دینے میں کوئی رشتہ، عمر یا حالت آڑے نہیں آتی۔
کربلا کا میدان تپتی ریت، پیاس، بھوک، تنہائی، بے بسی اور جبر کی علامت بن گیا۔ لیکن حسینؓ اور ان کے جانثاروں کے صبر، اخلاص اور استقامت نے اسے حیاتِ جاویداں کا استعارہ بنا دیا۔ ایک ایک شہید کی قربانی میں پیغام تھا۔ حضرت علی اکبرؓ، حسینؓ کے وہ جواں سال بیٹے، جو نبی کریمؐ کے مشابہ تھے، جب شہید ہوئے تو گویا خود رسول ؐ کا چہرہ میدان میں قربان ہو گیا۔ حضرت قاسمؓ، امام حسنؓ کے نوجوان بیٹے، جنہوں نے شادی کی عمر میں شہادت کو ترجیح دی۔ حضرت عباسؓ جنہوں نے وفا کی وہ مثال قائم کی کہ علم تو گرا نہیں، مگر دونوں بازو کٹوا دئیے۔ حضرت علی اصغرؓ، صرف چھ ماہ کا معصوم بچہ، جس کے گلے پر یزیدی تیر نے ضرب لگائی مگر وہ پیغام دے گیا کہ ظالم بچوں کو بھی نہیں بخشتا اور مظلوم اپنی معصومیت سے بھی باطل کو بے نقاب کرتا ہے۔
کربلا میں قربانی صرف مردوں نے نہیں دی بلکہ خواتین نے بھی حق کے علم کو تھامے رکھا۔ حضرت زینبؓ، امام حسینؓ کی بہن کربلا کے بعد ظلم کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی، یزید کے دربار میں کھڑی ہو کر خطبہ دیتی ہیں اور ظلم کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ ان کے الفاظ ایک تلوار سے کم نہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ عورت صرف پردے میں مقید نہیںبلکہ جب حق کا علم گرتا ہے تو وہ اسے اٹھانے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔
امام حسینؓ کی شہادت پر صرف ان کے خون کا رنگ نہیں بکھرا بلکہ امت کی آنکھوں سے حیا کے آنسو بھی رواں ہوئے۔ ان کی لاش تین دن تک تپتی ریت پر پڑی رہی، ان کے خیمے جلائے گئے، ان کی خواتین و بچوں کو قیدی بنایا گیا۔ مگر ان سب مظالم کے باوجود یزید فتح حاصل نہ کر سکا، کیونکہ فتح وہی ہوتی ہے جو دلوں پر راج کرے اور دل حسینؓ کے ساتھ تھے۔کربلا ہمیں بتاتا ہے کہ باطل وقتی ہو سکتا ہے، مگر حق ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ یزید کا نام آج بھی نفرت، ظلم، جبر اور گمراہی کی علامت ہے، جب کہ حسینؓ کا نام محبت، قربانی، عدل اور نور کا منبع ہے۔ اگرچہ یزید ظاہری طور پر حکمران تھا مگر تاریخ نے اُسے مردود قرار دیا۔ امام حسینؓ کے انکار نے اسلام کو نئی زندگی بخشی۔ اسی لیے شاعر نے کہا،
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
آج کے دور میں جب باطل کی صورتیں بدل چکی ہیں، جب فتنوں نے جدید روپ دھار لیے ہیں، ہمیں حسینؓ کی سنت کو زندہ رکھنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ہر وہ انسان جو جھوٹ، ظلم، رشوت، فحاشی، جہالت اور نفاق کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، وہ حسینؓ کے قافلے کا فرد بن جاتا ہے۔ ہر وہ دل جو عدل، صداقت، دیانت اور قربانی کو اپناتا ہے، وہ کربلا کے پیغام کا وارث بن جاتا ہے۔کربلا محض شیعہ یا سنی کا مسئلہ نہیں، یہ تو پورے عالم اسلام کی روح ہے۔ یہ دین محمدؐ کی بقا کا لمحہ ہے۔ آج اگر کوئی نیا یزید، کسی بھی شکل میں اُٹھے تو ہمیں حسینؓ کی جرأت چاہیے، حسنؓ کی حکمت چاہیے، عباسؓ کی وفاداری اور زینبؓ کی خطابت چاہیے۔
���
کولگام ، کشمیر
[email protected]