عظمیٰ ویب ڈیسک
ممبئی/چیف جسٹس آف انڈیا، جسٹس بھوشن رام کرشنا گوائی نے ہفتہ کے روز کہا کہ قانون یا آئین کی تشریح حقیقت پسندانہ (pragmatic) ہونی چاہیے اور اس انداز میں کی جانی چاہیے جو موجودہ معاشرے کی ضروریات سے مطابقت رکھتی ہو۔
یہ بات انہوں نے بمبئی ہائی کورٹ کی جانب سے اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ حال ہی میں انہیں اپنے چند ساتھیوں کے ناروا رویے کے بارے میں شکایات موصول ہوئی ہیں، اور انہوں نے ججوں پر زور دیا کہ وہ عدلیہ کے ادارے کی ساکھ کا تحفظ کریں۔
چیف جسٹس گوئی نے ایک سابقہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قانون یا آئین کی تشریح موجودہ نسل کو درپیش مسائل کے تناظر میں ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا، تشریح حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے۔ یہ ایسی ہونی چاہیے جو معاشرے کی ضروریات کے مطابق ہو۔انہوں نے کہا کہ ججوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ضمیر، حلف اور قانون کے مطابق کام کریں، لیکن فیصلہ ہو جانے کے بعد انہیں کسی قسم کی پریشانی لاحق نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک جج کو فیصلہ صادر کرنے کے بعد اس معاملے سے ذہنی طور پر لاتعلق ہو جانا چاہیے اور یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔
ججوں کی تقرری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے زور دیا کہ ’’عدلیہ کی آزادی کسی بھی قیمت پر متاثر نہیں ہونی چاہیے۔‘‘انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں تقرریوں کے دوران، کالجیم (Collegium) اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ قابلیت کے ساتھ ساتھ تنوع اور شمولیت کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
چیف جسٹس گوئی نے بمبئی ہائی کورٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا جہاں وہ کبھی وکیل کے طور پر کام کرتے تھے اور بعد میں جج بھی رہے کہ جب لوگ اس عدالت کے فیصلوں کی تعریف کرتے ہیں تو انہیں فخر محسوس ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، حالیہ دنوں میں مجھے اپنے بعض ساتھیوں کے سخت اور غیر شائستہ رویے کی شکایات ملی ہیں۔چیف جسٹس نے زور دیا کہ جج ہونا صرف صبح 10 سے شام 5 بجے تک کی نوکری نہیں ہے، بلکہ یہ معاشرے اور ملک کی خدمت کا موقع ہے۔انہوں نے ججوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے حلف اور عزم کے ساتھ سچے رہیں۔آخر میں انہوں نے کہابراہ کرم ایسا کوئی عمل نہ کریں جو اس عظیم ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچائے اس ادارے کی ساکھ کو وکلا اور ججوں کی نسلوں نے اپنی محنت اور لگن سے قائم کیا ہے۔