Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
کالممضامین

! وہ فصل جس نے زمین کی ملکیت بدل دی ایک اندراج جو جموں و کشمیر میں زمین کی ملکیت طے کرتا ہے

Towseef
Last updated: July 2, 2025 12:22 am
Towseef
Share
11 Min Read
SHARE

معلومات

محمد امین میر

جموں و کشمیر کی قانونی اور انتظامی تاریخ میں خریف 1971کا زرعی موسم محض ایک فصل کی کٹائی کا وقت نہیں تھا، بلکہ یہ ایک انقلابی سنگِ میل تھا۔ سن 1976 میں نافذ ہونے والے جموں و کشمیر زرعی اصلاحات ایکٹ کی دفعہ 4 نے کسانوں کو زمین کا مالکانہ حق عطا کیا اور جاگیرداری کے صدیوں پرانے نظام کا خاتمہ کیا۔ لیکن اس قانون کے تحت زمین کی ملکیت حاصل کرنے کی اہلیت صرف ایک معمولی مگر فیصلہ کن ریکارڈ پر منحصر تھی۔

خریف 1971کی گرداوری:
آج، نصف صدی بعد بھی، عدالتوں اور ریونیو افسران کے سامنے ایک اہم قانونی سوال باقی ہے۔کیا زرعی اصلاحات ایکٹ کی دفعہ 4 کے تحت کوئی انتقال قانونی طور پر اس وقت تصدیق پا سکتا ہے جب خریف 1971 میں متعلقہ کسان کا نام گرداوری میں درج نہ ہو؟یہ مضمون اس بنیادی قانونی مسئلے، عدالتی تشریحات اور زمینی سطح پر درپیش پیچیدگیوں کا جائزہ لیتا ہے،جہاں ایک سادہ سا اندراج نہ صرف قانونی ریکارڈ بلکہ زمین، روزگار اور انصاف کا پیمانہ بن چکا ہے۔

دفعہ 4۔ایک شق میں انقلاب :
زرعی اصلاحات ایکٹ 1976 جموں و کشمیر میں ایک انقلابی قانون سازی تھی۔ اس کی دفعہ 4 میں واضح طور پر کہا گیا،’’کسی بھی متضاد قانون کے باوجود،وہ زمین جو کسی کسان کے زیر قبضہ ہے، اس کی مالکانہ حیثیت ختم ہوگی اور زمین خود بخود اور قطعی طور پر اس کسان کی ملکیت تصور کی جائے گی۔‘‘نہ کوئی معاوضہ، نہ زمیندار کی رضامندی ،یہ زمین کی منتقلی بذریعہ قانون تھی۔ لیکن ایک شرط لازم تھی کہ کسان کو یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ 1971 کے خریف سیزن میں اس زمین کاشت کر رہا تھا اور اس کا واحد ثبوت تھا گرداوری کا ریکارڈ۔
خریف 1971 کو ہی کیوں منتخب کیا گیا؟:حکومت کی جانب سے خریف 1971 کو حدِ فاصل مقرر کرنا کوئی اتفاقیہ فیصلہ نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے کئی مقاصد کارفرما تھے:
تمام اضلاع کے لیے ایک یکساں معیار طے کرنا تاکہ بعد ازاں ریکارڈ میں چھیڑ چھاڑ نہ ہو۔1970 کی دہائی کے سیاسی تغیرات سے قبل کا غیر جانبدار ریکارڈ استعمال کرنا۔
ایک ایسا زرعی سیزن منتخب کرنا جو قانون کے نفاذ سے پہلے سب سے مناسب نمائندہ ہو۔اسی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا کہ جس کسان کا نام خریف 1971 کی گرداوری میں درج ہے، وہ زمین کا قانونی مالک بنے گا۔ جس کا نام درج نہ ہو، اس کا دعویٰ کمزور تصور ہوگا۔

گرداوری ۔ چھوٹا اندراج، بڑے نتائج:
ہر سال خریف اور ربیع کے موسم میں گرداوری کی جاتی ہے،یعنی پٹواری زمین پر جا کر کاشت کا معائنہ کرتا ہے اور ریکارڈ تیار کرتا ہے۔ عام حالات میں یہ ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے، لیکن زرعی اصلاحات کے سیاق
میں گرداوری ایک قانونی ستون بن گئی:زمین کی اصل کاشت کا ثبوت،قبضے کا ریکارڈ،زمیندار اور مزارع کے رشتے کی نوعیت۔دفعہ 4کے تحت صرف خریف 1971کی گرداوری کو فیصلہ کن شہادت مانا گیا۔ عدالتوں اور ریونیو حکام نے متعدد بار اس کی تاکید کی ہے۔

عدالت کا موقف1971کااندراج مقدس حیثیت رکھتا ہے۔
غلام محمد وانی بنام ریاست جموں و کشمیر۔اس اہم مقدمے میں ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا،’’خریف 1971 کی گرداوری میں کسان کا نام درج ہونا دفعہ 4 کے تحت انتقال کی توثیق کے لیے ناگزیر ہے۔ بعد ازاں کی کسی بھی تاریخ کا اندراج اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔‘‘
ریاست جموں و کشمیر بنام عبد الاحد میر۔اس کیس میں عدالت نے مزید وضاحت کی،’’قانون ساز کا ارادہ واضح ہے: صرف وہی مزارعین جو خریف 1971 میں درج ہیں، دفعہ 4 کے تحت زمین کے مالک بن سکتے ہیں۔ بعد کی گرداوریاں مشتبہ ہیں، اصلاحی نہیں۔‘‘یوں عدالتوں نے ایک صاف لکیر کھینچ دی۔1971کے بعد کے ریکارڈ سے زمین کی ملکیت ثابت نہیں ہو سکتی، چاہے قبضہ جاری رہا ہو یا نہیں۔

1971 میں اندراج نہ ہو؟ ایک قانونی اور انسانی المیہ
کشمیر کے ہزاروں مقدمات ایک جیسے پیٹرن پر مبنی ہیں۔کئی علاقوں میں پٹواریوں نے گرداوری ہی نہیں کی۔زمینداروں نے اثر و رسوخ استعمال کر کے مزارعین کے نام درج ہونے سے روکے۔مزارعین زمین کاشت کرتے رہے، مگر غیر رسمی طور پر—کوئی دستاویز نہ بنی۔ایسے حالات میں 1972، 1973 یا اس کے بعد کے اندراجات کی بنیاد پر ریونیو افسران نے انتقالات کی توثیق کی، مگر یہاں پر قانون اور انتظامیہ میں واضح تضاد پیدا ہو گیاکہ کیا 1971کے بعد کی گرداوریاں قانونی طور پر معتبر ہیں؟قانونی طور پرہرگز نہیں۔قانون اور عدالتی تشریحات کے مطابق صرف خریف 1971ہی کا ریکارڈ قابلِ قبول ہے۔ بعد کی گرداوریاں صرف اسی صورت میں مددگار ہو سکتی ہیں جب کوئی فراڈ، دباؤ، یا کلریکل غلطی ثابت کی جائے۔

انتظامی طور پر بعض اوقات ہاں:
سن 2007 تا 2010 کی ’’ریونیو مہم‘‘ میں ہزاروں انتقالات صرف ’’مسلسل قبضہ‘‘ کی بنیاد پر منظور کیے گئے، چاہے خریف 1971 کا اندراج نہ بھی ہو۔ یہ انتقالات انتظامی طور پر مؤثر تو ہیں، لیکن قانونی اعتبار سے کمزور ہیں۔

ریونیو حکام کی ہدایات ۔ قانون اور سہولت کے درمیان الجھن:
ریونیو فنانشل کمشنر کی جانب سے 2006تا 2009 کے دوران جاری سرکلروں میں واضح ہدایت دی گئی،’’دفعہ 4 کے تحت کوئی بھی انتقال اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ متعلقہ کسان کا نام خریف 1971 کی گرداوری میں درج نہ ہو۔‘‘تاہم بعض ڈپٹی کمشنروں اور تحصیلداروں نے زمین محصولات ایکٹ کی دفعہ 28 کا حوالہ دے کر کہا کہ زبانی گواہی یا دیگر شواہد سے بھی 1971 کی غیر موجودگی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ تشریحات دفعہ 4 کی روح کو کمزور کر دیتی ہیں۔

کیس اسٹڈی ۔کاشتکاری مگر شناخت نہیں:
غلام نبی ڈار، ضلع پلوامہ کے ایک کسان نے 1969سے 5کنال باغی زمین کاشت کی۔ لیکن زمیندار کے دباؤ کے باعث ان کا نام گرداوری میں درج نہ ہو سکا۔ پہلی بار ان کا نام ربیع 1972میں ریکارڈ میں آیا۔انہوں نے پیش کیے:زمین محصولات کی رسیدیں،لمبردار اور چوکیدار کے حلف نامے،مسلسل قبضے کے ثبوت۔پھر بھی 2009 میں ان کا انتقال مسترد کر دیا گیا،صرف اس بنیاد پر کہ خریف 1971 میں ان کا نام موجود نہیں تھا۔ یہ اس حقیقت کی مثال ہے جہاں قانونی تکنیکیّت انسانی سچائی پر غالب آ گئی۔

قانونی چارہ جوئی ۔ کمزور مگر موجود:
ایسے کسانوں کے لیے چند قانونی راستے موجود ہیں، اگرچہ وہ کٹھن اور وقت طلب ہیں۔(۱) اعلانیہ دیوانی مقدمہ دائر کرنا تاکہ پرانی مزارعت ثابت کی جا سکے۔(۲) ریٹ پٹیشن کے ذریعے قدرتی انصاف سے انکار کی شکایت کرنا۔(۳) ریونیو قانون کے تحت نظرثانی درخواست، اگر فراڈ یا کلریکل غلطی ہو۔
تاہم بغیر مضبوط ثبوت کے ان میں سے کوئی راستہ آسان نہیں۔

انصاف سے انکار یا انصاف کی تشریح؟:
خریف 1971پر سخت انحصار قانونی یکسانیت اور شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔ لیکن یہ اُن حقیقی کاشتکاروں کو بھی زمین سے محروم کر دیتا ہے جن کا نام محض انتظامی کوتاہی یا زمیندار کے دباؤ کی وجہ سے درج نہیں ہو سکا۔یوں ایک طبقہ ایسا پیدا ہو چکا ہے جو زمین کاشت کرتا ہے، جس کا اخلاقی حق ہے، لیکن قانونی شناخت سے محروم ہے۔

آگے کا راستہ۔ قانون اور انصاف کے درمیان پُل:
۱۔ خصوصی تصدیقی مہم:خریف 1971 کے بعد کی گرداوری رکھنے والے کیسز کے لیے زمینی سطح پر تحقیقات کی جائیں۔
۲۔ عدالتی رہنمائی :ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی فل بینچ سے واضح ہدایات لی جائیں کہ کیا ضمنی ثبوت کو 1971 کی غیر موجودگی میں قابلِ قبول مانا جا سکتا ہے۔
۳۔ ڈیجیٹل تصدیق:ڈیجیٹل جمعبندی، گرداوری ریکارڈ، اور سیٹلائٹ تصاویر کا استعمال کر کے زمینی تاریخ کو دوبارہ تعمیر کیا جائے۔

۴۔ قانونی ترمیم :ایسے کسانوں کے لیے ایک ون ٹائم ایمنسٹی یا ترمیم پر غور کیا جائے جنہیں ان کی غلطی کے بغیر ریکارڈ سے باہر رکھا گیا۔

ایک فصل، ایک جدوجہد:
خریف 1971کی گرداوری جموں و کشمیر میں زرعی ملکیت کے تعین کی بنیاد بن گئی ہے۔ اس نے قانونی یقین ضرور پیدا کیا، لیکن بہت سے مقامی کسانوں کے لیے یہ ایک قانونی ناانصافی بن گئی۔جموں و کشمیر جب ایک نئے نظامِ اراضی کی طرف بڑھ رہا ہے، تو ضروری ہے کہ وہ اس تاریخی معیار کو محض شبہے سے نہیں بلکہ قانونی حکمت اور انتظامی ہمدردی سے دوبارہ دیکھے۔ورنہ یہی زمین، جو کسانوں کو طاقت دینے کا ذریعہ تھی، ان کی مزید محرومی کا سبب بن سکتی ہے،بدقسمتی سے اصلاحات کے نام پر۔
(کالم نگار جموں و کشمیر میں دیہی اراضی، ریونیو انتظامیہ اور عدالتی اصلاحات کے موضوعات پر لکھنے والے قانونی اور پالیسی تجزیہ کار ہیں)

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
راجوری اور ریاسی میں موسلادھار بارش کے باعث لینڈ سلائیڈنگ اہم سڑکوں پر ٹریفک کی نقل و حمل میں رکائوٹ ، مسافر گھنٹوں متاثر رہے
پیر پنچال
ٹنگمرگ میںپانی کی سپلائی لائین کاٹنے کا واقعہ | 2فارموں میں 4ہزار مچھلیاں ہلاک
صنعت، تجارت و مالیات
قومی سیاحتی سیکرٹریوں کی کانفرنس 7جولائی سے سرینگر میزبانی کیلئے تیار
صنعت، تجارت و مالیات
وادی میں دن بھرسورج آگ برساتا رہا|| گرمی کا72سالہ ریکارڈٹوٹ گیا درجہ حرارت37.4 ڈگری،ایک صدی میں جولائی کا تیسرا گرم ترین دن ثابت
صفحہ اول

Related

مضامین

تاریخ کربلا اور شہادت امام حسینؓ کرب و بلا

July 5, 2025
مضامین

امام حسنؓ، امام حُسینؓ اور شہدائے کربلا پیغامِ کربلا

July 5, 2025
مضامین

حق و باطل کا تاریخ ساز معرکہ واقعہ کر بلا

July 5, 2025
مضامین

شہادتِ سیّدنا امام حسینؓ حادثہ ٔکربلا

July 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?