Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
کالممضامین

“درخواست برائے واپسی ٔ ریاست” جرسِ ہمالہ

Towseef
Last updated: June 30, 2025 11:38 pm
Towseef
Share
10 Min Read
SHARE

میر شوکت پونچھی

چاندنی کی ایک مریل سی کرن، گُل مرجاں کے کانپتے پتّے پر ٹھہری تھی، جیسے کسی بوڑھے کاتب کی انگلی کسی بوسیدہ رجسٹر کے آخری صفحے پر۔ کہیں دور دریا کا پانی اُفق پر لرزتا تھا، جیسے کسی جمہوری وعدے کی دھندلی بازگشت ہو، اور بیچ میں یہ وادی تھی ،گلگت و بلتستان سے شرماتی ہوئی اور دہلی کی تحریریں پڑھ کر چپ چاپ سَر جھکائے بیٹھی۔

اسی وادی میں ایک شخص تھاجو کبھی راج سنگھاسن پر بیٹھا کرتا تھا، آج فائلوں کے نیچے دبے ہوئے اسٹیٹ ہُڈ کے نقشے کو تلاش کررہا تھا، جیسے بچپن کی گمشدہ پنسل جس کا سِرا چبایا ہواور جس سے کبھی وہ’’Self Rule‘‘کا ہوم ورک لکھا کرتا تھا۔ اس کا نام عمر تھا، مگر عمرِ نوح لے کر بھی اقتدار کے پانی پر کشتی نہیں چلا سکا۔ چہرے پر وہی صوفیانہ معصومیت، جیسے کوئی طالبعلم اسمبلی میں پکوڑے بیچنے کی اجازت مانگ رہا ہو۔ جب اُس نے پریس کانفرنس میں آنکھیں پھیلائیں اور کہا،’’ہم ریاست کی واپسی چاہتے ہیں‘‘ تو یوں لگا جیسے کسی دُھند زدہ آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر کوئی آئندہ عید کے کپڑوں کی فرمائش کر رہا ہو۔

ریاست؟ وہی جسے ایک رات کے اندھیرے میں’’یونین ٹریٹمنٹ‘‘ دے کر ICU میں ڈال دیا گیا تھا۔ اب اس کے وارث، شرافت کی وہ پتلیاں، جو کبھی خود اقتدار کے حلوے میں چمچ چلاتی تھیں، آج پرانے فائلوں میں وہی حلوہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ اور دہلی؟ وہ اُس منصف کی مانند ہے جو لٹھ لے کر آتا ہے اور پھر سوال کرتا ہے کہ قیدی کو کیوں زنجیر پہنائی؟ حضور! زنجیر تو وہ خود پہن کر آیا تھا، ہم نے تو صرف چابی گم کی تھی۔

یہاں بات صرف عمر کی نہیں، یہ پوری ریاست کا کرب ہے، جسے نیا نام دے کر پرانے دکھوں کی درجہ بندی میں ڈال دیا گیا ہے۔ جیسے کوئی شخص اپنی مرحومہ بیوی کے کپڑے کسی اور کو پہنا کر کہے،’’محبت تو وہی ہے، بس تھوڑی configuration بدل دی گئی ہے۔‘‘

عمر آج بھی پریس کانفرنس میں اُس تخت کی بات کرتا ہے جو کبھی’’خودمختاری‘‘ کی چادر اوڑھے، ریشمی تکیوں پر آرام کرتا تھا۔ آج وہ تخت تو نہیں، مگر یادیں باقی ہیں،ٹی وی پر نشر ہوتی تصویریں، جن میں لیڈر جھوم کر کہتے تھے،’’ہم دہلی سے آزادی نہیں، احترام چاہتے ہیں۔‘‘ دہلی نے سوچا، ٹھیک ہے، احترام کے بجائے اب آپ کو احترام کی نقل بھیج دی جائے گی چینی ساختہ، بیوروکریٹک اور بغیر آواز کے۔

عمر کی بے بسی اتنی معصوم ہے کہ اب جب وہ بولتا ہے تو مائک نہیں ہنستا، مگر کیمرہ جھک کر کہتا ہے،’’پھر وہی بات؟‘‘ اور جب وہ ریاست کی واپسی کی بات کرتا ہے تو دیوانِ خاص کے در و دیوار تھوڑا سا ہلتے ہیں، جیسے کسی بھکاری نے پرانے محل کے گیٹ پر دستک دی ہو۔

مگر اس تحریر کا اصل کمال یہاں نہیں بلکہ اس منظر میں ہے جہاں عمر عبداللہ ایک ڈائری لیے دہلی کے در پر دستک دے رہا ہے اور اندر سے ایک نوکر آ کر کہتا ہے: ’’صاحب مصروف ہیں، یونین بجٹ پڑھ رہے ہیں، اسٹیٹ بجٹ آپ خود لکھ لیں۔‘‘

کشمیر میں اب خزاں بھی سہم کر آتی ہے، کیوں کہ درختوں کے پتّے کہیں قومی ترانے کی شقّوں میں شامل نہ ہو جائیں۔ پھول چپ چاپ کھلتے ہیں اور تتلیاں شناختی کارڈ ساتھ لے کر نکلتی ہیں اور ایسی فضا میں اگر کوئی سابق وزیر اعلیٰ ریاست مانگے تو وہ بھی بونس کے طور پر ہی گنا جاتا ہے،جیسے بینک میں پرانا نوٹ، جو اب صرف جذباتی قیمت رکھتا ہو۔

ہم بھی اُس عدل سے کوئی توقع نہیں رکھتے جو ہمیں زنجیر پہنا کر کہے،’’آزادی تمہارے جسم کے اندر ہے، بس ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔‘‘ اور جب ہم ریاست مانگتے ہیں، تو وہ ہمیں شماریات دے کر سمجھاتے ہیں کہ فی کس آمدنی بڑھ چکی ہے اور بے روزگاری کے گراف میں ریاست کا نام اب صرف footnote میں رہ گیا ہے۔

عمر عبداللہ آج کا وہ شاعر ہے جو اپنے ہی مصرعے بھول بیٹھا ہے۔ وہ جنہوں نے کبھی’’سیاست‘‘ کی غزلیں چُھپائی تھیں، آج نثر میں اپنی بربادی کے نوٹس دے رہے ہیں اور ہم جو تماشائی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ وہ ریاستی حقوق مانگیں، مگر ہنستے ہنستے، جیسے کوئی مہمان اپنی چپل واپس مانگے اور میزبان کہے،’’یہ تو اب ہماری دروازے کی زینت ہے۔‘‘

اب منظر کو تصور کیجیے: عمر عبداللہ ایک سرکاری دفتر کے باہر قطار میں کھڑا ہے، ہاتھ میں ایک پرانا درخواست فارم، جس پر لکھا ہے،’’درخواست برائے واپسی ریاست جموں و کشمیر‘‘ کلرک فارم دیکھ کر ہنستا ہے، قلم رکھ کر کہتا ہے،’’یہ فارم تو ۲۰۱۹ میں ختم ہو چکا، اب تو ہم صرف ‘یو ٹی ترقیاتی فارم’ لیتے ہیں۔‘‘

عمر دھیرے سے مسکراتا ہے، آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے،’’شاید کوئی اور دن، کوئی اور وقت، جب انصاف کے دفتر میں زنجیروں کی بجائے خوابوں کی فائلیں رکھی ہوں گی۔‘‘

عمر عبداللہ کی سیاست اب وہی پرانا ریڈیو ہو چکی ہے، جسے دادی اماں بڑی محبت سے پونچھتی تھیں، چلاتی تھیںاور پھر بند کر دیتی تھیں کہ’’بس آواز یاد رکھنے کو کافی ہے۔‘‘ اب ان کے بیانات سن کر لگتا ہے جیسے کوئی مدرسے کا طالب علم دعویٰ کر رہا ہو کہ وہ پی ایچ ڈی کرنے جا رہا ہے،پڑھائی اپنی جگہ اور نیت اپنی۔

دہلی میں اب کسی کو ریاست کے درد سے ہمدردی نہیں، بلکہ کچھ تو اسے دماغی خلل سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں،’’بھئی یہ عمر تو ہر بار ریاست کو ایسے مانگتا ہے جیسے کوئی ضعیف دادا، بچپن کی سائیکل یاد کر کے کہے،’’ وہی چرخہ دے دو، جس پر ہم نیچے گرے تھے۔‘‘اور دہلی؟ دہلی اب صرف اتنی بات پر قائل ہے،’’وقت آنے دو ریاست دے دی جائے گی۔‘‘

کیا عمر عبداللہ کو خبر ہے کہ آج کا نوجوان تو ہنستا ہے جب وہ ’ریاست‘ کا لفظ سنتا ہے؟ ایک طالبعلم کہہ رہا تھا،’’انکل عمر بھی نا، ہر بار وہی ریاست مانگتے ہیں جیسے ہمارے چاچا ہر شادی میں بریانی مانگتے ہیں اور پھر سالن میں صرف آلو ملتا ہے۔‘‘

اب وہ وقت نہیں رہا کہ کشمیر کی بات سن کر دلی کی پیشانی پر فکر کی شکنیں پڑتی تھیں۔ اب وہاں صرف ایک فائل کھلتی ہے، جس کا عنوان ہوتا ہے،’’Sentiments Management Strategy – Updated‘‘عمر عبداللہ کو دیکھ کر کبھی کبھی لگتا ہے کہ وہ اب ان سیاسی کرداروں میں سے ہیں جن کے لیے اسمبلی میں سیٹ نہیں بلکہ فوٹو البم محفوظ ہونی چاہئے،ایک کیپشن کے ساتھ’’یہ وہ وقت تھا جب ہم اسمبلی میں جاتے تھے بغیر سیکورٹی کے اور باہر آتے تھے بغیر پریس نوٹ کے!‘‘

گزشتہ دنوں عمر صاحب نے ایک جلسے میں کہا،’’ریاست چھن گئی، مگر حوصلہ نہیں۔‘‘سامنے کھڑے ایک بزرگ نے دھیرے سے کہا،’’بیٹا! ریاست کی بات چھوڑو، اب تو اس پرانے صوفے کی بھی واپسی ممکن نہیں جو آپ کے والد کی کرسی تھی!‘‘

دلی میں تو اب نئے منصوبے بنتے ہیں، نئی زبان میں۔ جیسے
’’Empowered Administrative Fragmentation for Accelerated Harmony.‘‘اس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے:’’اختیار کی ایسی تقسیم کہ کوئی پھر سوال نہ کرے۔‘‘اور عمر؟ وہ اب بھی اپنی پرانی سیاسی جیکٹ پہنے، مائک کے سامنے کھڑے ہو کر وہی سوال دہراتے ہیں جیسے پرانے دور کا ریکارڈ، جو سوئی ایک ہی جگہ اٹکا بیٹھا ہو،’’ہمیں ریاست چاہیے، ہمیں اپنی شناخت چاہیے، ہمیں وہی کشمیر چاہیے جس میں ہم بُوٹ کے بغیر چلتے تھے!‘‘

آخر میں ایک منظر دیکھیے کہ کسی سنسان سڑک پر، خزاں کے زرد پتّوں کے بیچ، ایک خاکی پوش پرانا پوسٹ مین عمر عبداللہ کے نام ایک رجسٹری پکڑے کھڑا ہے، جس پر لکھا ہے،
’’ریاست کی واپسی: معطل، ازخود نوٹس زیرِ غور۔‘‘عمر دروازہ کھولتے ہیں، رجسٹری لیتے ہیں، مسکراتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں،’’چلو، کم از کم ہماری یادداشت تو ابھی زندہ ہے!‘‘
رابطہ۔ 9906083786
[email protected]>

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
پی ڈی پی کاعوامی مسائل کو لیکر احتجاجی مارچ ناکام، معتدد رہنما گرفتار
تازہ ترین
رشوت خوری کے خلاف کریک ڈاؤن،انسدادِ بدعنوانی بیورو نے ڈی ڈی سی ممبرکو ساتھی سمیت گرفتار کیا
تازہ ترین
شری امرناتھ یاترا:بھگوتی نگر بیس کیمپ پر یاتریوں کی بڑی تعداد میں آمد شروع
تازہ ترین
اودھم پور میں شراب فروش گرفتار، غیر قانونی شراب بر آمد:پولیس
تازہ ترین

Related

طب تحقیق اور سائنسمضامین

زندگی گزارنے کا فن ( سائنس آف لیونگ) — | کشمیر کے تعلیمی نظام میں ایک نئی جہت کی ضرورت فکرو فہم

June 30, 2025
طب تحقیق اور سائنسکالم

! کتب بینی کی روایت دَم توڑ رہی ہے فکر انگیز

June 30, 2025
طب تحقیق اور سائنسکالم

گرمائی تعطیلات اور گرمی کا موسم فکر و ادراک

June 30, 2025
طب تحقیق اور سائنسکالم

! سیکھنے میں کیسی شرم؟ سوال علم کی ابتدا ہے

June 30, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?