معصوم مراد آبادی
ایران و اسرائیل کے درمیان فی الحال جنگ بندی ہوگئی ہے ، لیکن مشرق وسطیٰ کی صورتحال اب بھی دھماکہ خیزہے۔ غزہ میں ہرروز ظلم وبربریت کی نئی کہانیاں رقم کی جارہی ہیںاور اس کا نشانہ وہ بھوکے پیاسے فلسطینی عوام ہیں جن کا سب کچھ برباد ہوچکا ہے اور وہ نان شبینہ کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوئے ہیں۔غزہ میں امداد کے لیے جمع ہونے والے ان بھوکے فلسطینیوں پر گولیاں چلانے کا حکم ظالم وجابر اسرائیلی فوجیوں کو اوپر سے ملا ہوا ہے، جس کاا عتراف خود غزہ میں موجود اسرائیلی فوج نے کیا ہے۔ ہند۔پاک جنگ کی طرح ایران ،اسرائیل جنگ رکوانے کا کریڈٹ بھی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے لیا ہے۔حالانکہ اس جنگ کو شروع کرانے میں بھی ان ہی کا ہاتھ تھا۔ ہاتھ ہی نہیں تھا بلکہ انھوں نے اس جنگ میں اپنا داؤ بھی آزمایا اور ایران کے جوہری مراکز پر حملے کرکے انھیں تباہ کرنے کا بلندبانگ دعویٰ کیا۔ اگرچہ ایران کا کہنا ہے کہ امریکہ نے جن جوہری مراکزپر حملہ کیا ہے، وہاں سے یوروینیم کے ذخائر پہلے ہی محفوظ مقامات پر پہنچا دئیے گئے تھے۔ سچ پوچھئے تو یہ جنگ امریکہ ہی کی مسلط کی ہوئی تھی کیونکہ وہی پچھلے دومہینے سے ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کررہا تھا۔مگر مذاکرات ختم ہونے سے پہلے ہی اسرائیل نے ایران پر حملہ کرکے اس کی صف اوّل کی عسکری اور جوہری قیادت کو ختم کردیا اور شہری علاقوں پر بم برسانا شروع کردئیے ۔ اسرائیل کے شروعاتی حملے اتنے جارحانہ اور منظم تھے کہ سبھی کو یہ محسوس ہوا کہ ایران جلد ہی ہتھیار ڈال دے گا۔ یہاں تک کہ ایرانی عوام کے حوصلے پست کرنے کے لیے رہبراعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کرنے کے منصوبوں کو بھی عام کیا گیا ، لیکن ایران نے اس نازک گھڑی میں زبردست حوصلے اور عزم کا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیل اور امریکہ دونوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔
منصوبہ یہ تھا کہ ایران کو بے دست وپا کرکے وہاں عراق جیسی ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کردی جائے اور اسرائیل میں موجود ایران کے سابق حکمراں رضا شاہ پہلوی مرحوم کے بیٹے کو حکمراں بناکر ایران پر مسلط کردیا جائے، مگرایسا نہیں ہوسکا۔دراصل اسرائیل اور امریکہ نے ایران کی طاقت کو بہت کم کرکے آنکنے کی غلطی کی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایران نے جوابی حملہ کیا تو اسرائیل کی چیخیں نکل پڑیں۔ اسرائیل کے کئی شہروں میں ایران کے خطرناک بیلسٹک میزائلوں نے وہ قہربرپایا کہ اسرائیلی عوام پناہ مانگنے لگے۔بلند وبالا عمارتیں کھنڈروں میں تبدیل ہونے لگیں اور اسرائیل میں بھی وہی مناظر رقص کرنے لگے جو پچھلے بیس مہینوں سے غزہ میں اسرائیلی وحشت و درندگی کے نتیجے میں رقص کررہے تھے۔ ان مناظر کو دیکھ کر ان لوگوں کو صبر آیا جو غزہ کے کھنڈرات دیکھ کرمہینوں سے خون کے آنسو رورہے تھے۔یہ قدرت کا انتقام ہی تھا کہ غزہ جیسے حالات کاسامنا اسرائیل کے باشندوں کو بھی کرنا پڑا اور وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے بے تحاشا بنکروں میں جاپہنچے ۔
بیشتر اسرائیلی باشندوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے ملک میں ایسی تباہی کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔حالانکہ اکتوبر2023میں جب حماس نے اسرائیل کی ناقابل تسخیر قوت کو ٹھینگادکھا کر وہاں کارروائی کی تھی تو اس میں کم وبیش ڈیڑھ ہزار اسرائیلی باشندے ہلاک ہوگئے تھے اور سیکڑوں کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔ان میں سے کچھ یرغمالی آج بھی حماس کی تحویل میں ہیں ۔دنیا کو اسی وقت یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ خود کو دفاعی طورپر دنیا کا سب سے زیادہ مضبوط ملک قرار دینے والی اس ناجائز مملکت کی سیکورٹی کتنی کمزور اور لچر ہے کہ وہ حماس کا مقابلہ بھی نہیں کرپائی۔ ایرانی حملوں کے دوران بھی اس کا ’آئرن ڈوم ‘ بری طرح پسپائی کاشکارہوا۔یہ وہی ’آئرن ڈوم ‘ تھا جس کے بارے میں اسرائیل کی خام خیالی یہ تھی کہ کوئی اسے بھید نہیں پائے گا۔ لیکن ایران کے ابتدائی حملوں ہی میںاسرائیل کا سب سے مضبوط دفاعی نظام ڈھیر ہوگیا ۔
اگر ایران اپنی جوہری تنصیبات پر حملوں کے جواب میںقطر میں موجود امریکہ کے فوجی اڈے کو نشانہ نہیں بناتا تو جنگ اب بھی نہیں رکتی ، کیونکہ اسرائیل اور امریکہ دونوں ہی ایران میں تختہ پلٹنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔انھیں اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ1979میں علامہ خمینی کی قیادت میں جو اسلامی انقلاب برپا ہوا تھا ، وہ اب ایک حقیقت کا روپ اختیار کرچکا ہے۔ انقلاب کے آغاز میں وہاں ’مرگ برامریکہ ‘ کے جو نعرے لگتے تھے ، وہ ایک مستحکم حقیقت ہیں۔ایران کا انقلاب ایک نظریاتی انقلاب تھا اور اس کا سیدھا مقابلہ صیہونیت کے ساتھ تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ایران نے غزہ میں حماس ، لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں کو بھرپورکمک پہنچائی تاکہ وہ اسرائیل کی ناک میں دم کرتے رہیں۔ شام میں اقتدار کی تبدیلی ، حزب اللہ اور حماس کی اعلیٰ قیادت کے خاتمے کے بعد اسرائیل کا خیال تھا کہ اس نے ایران کی کمر توڑدی ہے اور اب وہ اس کو لقمہ تربناسکتا ہے ، لیکن یہ ایک خام خیالی تھی اور اس کا اندازہ اسرائیل کو اس وقت ہوا جب ایران نے اسرائیلی حملوں کو منہ توڑ جواب دیا۔
سبھی جانتے ہیں کہ ایران اور اسرائیل اس خطہ میں ایک دوسرے کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے توسط سے اپناجو تسلط قائم کررکھا ہے اور جس طرح عرب ملکوں کو زیرکررکھا ہے ، وہ ایک تلخ حقیقت ہے ۔ اسرائیل کی پشت پر شروع ہی سے امریکہ کی طاقت ہے اور وہی اسے فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے ہتھیار اور سفارتی پشت پناہیفراہم کرتا رہا ہے۔ امریکہ نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مظالم اور توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف پیش ہونے والی سیکڑوں قراردادوں کو ویٹو کیا ہے اور آج بھی جبکہ غزہ میں اسرائیلی وحشت وبربریت کا ننگا ناچ جاری ہے ،یہ امریکہ ہی ہے جو وہاں امن قائم نہیں ہونے دیتا۔ امریکہ اب تک غزہ میں جنگ بندی کی آٹھ قراردادوں کو ویٹو کرچکا ہے۔صدر ٹرمپ جن کی زبان اورذہن میں زبردست تضاد پایا جاتاہے اور جنھیں جنگیں رکوانے اور امن قائم کرنے کا بڑا شوق ہے ،وہ آخر غز ہ میں اسرائیلی بربریت رکوانے میں کیوں ناکام ہیں؟یہی دراصل وہ منافقت ہے جس نے مشرق وسطیٰ کو اس وقت جوالا مکھی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ افسوس کہ عرب مملکتیں صدرٹرمپ پر دباؤ ڈلواکر غزہ میں اپنی ہی نسل کشی رکوانے میں ناکام ہیں۔ وہاں اب بھوک اور پیاس سے بلکتے نہتے بے قصور بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں پر گولیاں برسائی جارہی ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس خطہ میں ایران ہی واحد قوت ہے جو بیک وقت اسرائیل اور امریکہ دونوں کو چیلنج کرتا رہا ہے ۔ حالیہ جنگ کے دوران اس نے یہ ثابت کیا کہ اس کے اندر اسلامی حمیت اور جذبہ دونوں برقرار ہے جبکہ عرب ممالک اس سے محروم ہیں اور ان کی زندگی کا واحد مقصد اپنی شخصی حکومتوں کو بچانا ہے۔ سراٹھاکر جینا اور مرنا اگر کسی کو سیکھنا ہوتو ایران سے سیکھنا چاہئے۔ ایک اسلامی ملک کے طورپر ایران نے خدااعتمادی اورخوداعتمادی کا جو ثبوت پیش کیا ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایران نے خود کو ایک عسکری قوت کے ساتھ ساتھ اسلامی قوت کے طورپر بھی خود کو ثابت کیا ہے۔ایران کے اسلامی انقلاب سے نظریاتی اختلاف کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ عزت نفس کے ساتھ جینے اور مرنے کے آداب ہمیں ایران سے سیکھنی چاہئیں۔ کیونکہ ایران نے حالیہ جنگ کے دوران باطل قوتوں کے سامنے سرنگوں کرنے سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ ان کا دیوانہ وار مقابلہ بھی کیا۔کاش عرب ملکوں میں بھی ایسی ہی غیرت اور حمیت ہوتی ۔
[email protected]