عصر حاضر سائنس و ٹیکنالوجی اور ایٹمی ترقی کا زمانہ ہے۔ ایٹم بم کی بے پناہ قوت موجودہ دور کے انسان کے اشاروں پر کسی غلام کی طرح کام کرتی ہے۔ یہ طاقت عصر حاضر کے انسان امن اور انسانیت کی ترقی کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں اور جنگ کے لئے بھی۔ہم سب نے اُس المناک سانحہ کے تباہ کُن حالات و واقعات کو سُنا یا پڑھا ہوگا جب آج سے 80سال قبل، 1945میں ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم کی طاقت کو جنگ میں استعمال کیا گیا تھا۔ ایٹم بم کے صرف دو دھماکوں نے لاکھوں انسانوں کو فنا کردیا تھا۔ سینکڑوں میل تک پودے، انسان اور حیوان خاک کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے تھے اور لاکھوں انسان ہمیشہ کے لئے اپاہج ہو گئے، لیکن موجودہ ہائیڈروجن بم ان کے مقابلے تین گناہ زیادہ تباہ کُن ہیں۔دنیا کی کی طاقتور ملکوں کے پاس ایسے بموں کے ذخیرے موجود ہیں۔ اگر کسی جنگ میں ان میں چند بم بھی استعمال کئے گئے تو تمام دنیا تباہ اور برباد ہو سکتی ہے۔موجودہ عالمی سیاسی حالات میںمختلف ملکوں،جن میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں کے مابین چلی آرہی کشیدگی،روس یوکرین کی جاری جنگ ،ایران اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی ،فلسطین کی صورت حال ،عرب ملکوں کی خاموشی اور سُپر پاور امریکہ کے موجودہ صدر کی غیر یقینی پالیسی کے نتیجے میں کسی بھی وقت تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے اور ہماری لاکھوں برس پرانی تہذیب اور تمدن اور زندگی کے آثار کو مٹا سکتی ہے۔حالانکہ کافی عرصہ پہلے ایک امریکی پریزیڈنٹ کنیڈی نے جنگ کے اِسی خطرے کے متعلق کہا تھا کہ یا تو انسان کو ہمیشہ کے لئے جنگ کے امکانات کو ختم کرنا ہو گا ورنہ جنگ انسان کو ختم کر دے گی۔اگر کچھ لوگ ایٹمی جنگ میں ہلاک ہونے سے بچ ہی گئے تو انکی زندگی مردوں سے بدتر ہوگی۔ کیونکہ ایٹم کی تباہی کسی ملک یا قوم ،براعظم تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ہر انسان اور جاندار اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔جتنی ایٹمی اسلحہ کی تیاریاں بڑھ رہی ہیں اتنا ہی ایٹمی جنگ کا خطرہ قریب ہوتا جا رہا ہے۔ ہر وقت جنگ کا خوف ہمارے سروں پر سوار ہے ،پتہ نہیں کب دنیا کی قسمت کا فیصلہ ہوجائے اور انسان کا چاند پر بسنے کا خواب اُدھورا ہی رہ جائے۔ ہاں!یہ بات نہیں کہ جنگی طاقتوں کو ایٹمی جنگ کے نقصان کا اندازہ نہیں، سب ہی جانتے ہیں کہ ایٹمی جنگ میں ہارنے اور جیتنے کا سوال ہی نہیں اُٹھتا، کیونکہ ایٹمی جنگ کا نتیجہ دیکھنے کے لئے مشکل سے ہی کوئی انسان باقی بچے گا۔ اس لئے شاید ہی کوئی ملک ایٹمی جنگ کرنے میں پہل کرنے کی ہمت کرے۔لیکن جنگ میں ہر چیز ممکن ہے، انسان بعض حالات میں دیوانگی کے فیصلے بھی کرسکتا ہے۔ کیا پتہ جھوٹی عزت اور شان پر آنچ آتے دیکھ کر کوئی سر پھرا ملک ہائیڈروجن بم کا استعمال کرنے پر مجبور ہوجائے۔گویاتیسری عالمی جنگ کا خطرہ جتنا آج ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔ اس خطرے کو جنگی تیاریوں سے نہیں بلکہ امن کی طاقت سے روکا جاسکتا ہے۔ دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے ابھی تک جو کوششیں ہوئی ہیں ،ان میں سے بیشتر اس وجہ سے ناکام ہوئی ہیں کہ ایک ملک کو دوسرے پر اعتبار نہیں یا اُن کے اندر نفرت کی جڑیں اتنی گہری پھیلی ہوئی ہیں کہ وہ باہمی دوستی میں رُکاوٹ ڈالتی ہیں۔پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز نے امن کے لیے جو مجلس بلائی تھی وہ بالکل بے کار ثابت ہوئی۔ یواین او کی کوششیں لیگ آف نیشنز کے مقابلے میں زیادہ پُراثر ہوا کرتی تھیں۔ لیکن ابھی تک یواین او بھی امن کے لئے کوئی یقینی اور قطعی حل پیش نہیں کر سکی۔ دنیا آج بھی دو گروہوں میں بٹی ہوئی ہے ،روسی بلاک اور امریکی بلاک۔ جب تک دنیا کے تمام ممالک کے اندر ایکتا کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا ،اس وقت تک دنیا جنگ کے خطرے میں مبتلا رہے گی۔دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے کسی ایسی عالمی طاقت کی ضرورت ہے جو یواین او سے بھی زیادہ طاقتور ہو۔ جو جنگی اسلحہ رکھنے کے لیے مکمل پابندی کرا سکے ،کیوں کہ جنگی اسلحہ کی تیاریاں جب تک جاری رہیں گی جنگ کا خطرہ بھی منڈلاتا رہے گا۔ ایٹمی دھماکوں پر پابندی کی بھی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والے زمانے میں ملکی اور نسلی تعصب ختم ہوجائے اور ایک عالمی حکومت بن جائے۔ جنگ کا خطرہ مکمل طریقہ سے صرف اسی وقت ٹل سکتا ہے جب دنیا میں عالمی حکومت کا قیام ہو جائے۔دیکھیں شاید یہ خواب کبھی حقیقت بن جائے۔