سہیل سالم
شب غم کی وادیوں اور اندھیرے کی بستیوں میں روشنی کا ’’اعلان جاری‘‘کرنے والا یہ سنجیدہ اور بے باک قلم غلام نبی شاہد کا ہے۔جس نے بیسویں صدی میں اپنی تخلیقی توانائی سے نہ صرف فکشن کے ایوانوں میں سوالات قائم کیے بلکہ فکشن کی تاریخ میں ایک اہم مقام بھی حاصل کیا اور فکشن کے موضوعات اور اسلوب کو ایک نئی جہت بھی عطا کی۔شاہد صاحب کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’اعلان جاری ہے ‘‘کے عنوان سے 2013 میں منصہ شہود پر آگیا جس کے اب تک تین ایڈیشن بھی منظر عام پر آ چکے ہیں ۔اپنی زبان اور فکر کا ذائقہ بدلنے کے لئے شاہد صاحب نے نظم نگاری کے میدان میں قدم رکھ کر اپنے شعری مجموعہ ’’چاند گواہ ہے‘‘ کو 2025 میں ادبی دنیا میں متعارف کرایا ، جس میں زندگی کے مصائب و مشکلات ،نشیب و فراز اور بے بسی کو بیان کرنی کی کامیاب سعی کی گئی ہے ۔’’چاند گواہ ہے ‘‘غلام نبی شاہد کا تازہ شعری مجموعہ ہے جو کہ نظموں پر مشتمل ہیں ۔شاہد صاحب کی نظموں میں معاشرے کے وہ ناپاک سوراخ اور ان میں پنپنے والی گندگی پر لوگوں کا روایہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔انسانی حقوق کی وکالت کرنے والوں کا بھی پردہ فاش کیا ہے۔ان کے یہاں سماج کا دکھ درد ،اس کی بھیانک تاریخ کے مختلف روپ بھی مختلف رنگوں میں نظر آتے ہیں ۔جب وہ معاشرے میں اندھیرا ،آندھی ،جھوٹ کی پرستش اور مکرو فریب کا لبادہ اوڑھ کر سماج کے ذی وقار لوگوں کو دیکھتے ہیں ۔اُن کی نظموں میں داخلی اور خارجی کرب اپنے جوبن پر نظر آتا ہے۔جس میں فنی بصیرت ،تخلیقی آگہی اود لہجے کی سادگی سے ایسا تاثر قائم کیا گیا کہ افہام و تفہیم کے نئے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ان کی نظموں میں ماضی کی بے بسی تو ہے ہی ، حال کی سنجیدہ فکر بھی ہے اور مستقبل کی ایک ایسی دھڑکن بھی سنائی دیتی ہے جس میں سوز و گداز اور درمندی کی مجموعی صورتحال سے بھی آشنا ہو جاتے ہیں ۔ان کی نظمیں حق کے حقیقی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ان کے یہاں وارداتوں ،تجربوں اور متنوع موضوعات کا دائرہ کافی وسیع ہے ۔شاہد صاحب کی نظموں میں حقائق کی اعلیٰ قدروں کی پامالی سے اور بے وفائی سے پیدا ہونے والے تصویر بے رنگ دکھائی دیتی ہے ۔افسردگی ،آشفتگی ،محرومی اور مایوسی کے احساس نے ان کی شخصیت کو کربناک خلاؤں میں قید کر کے رکھا ہے۔عام لوگ اپنی تاریخ سے کنارہ کش اختیار کر رہے ہیں ۔زندگی نے نیا روپ دھار لیا ۔انسان ذات و پات ،رنگ و نسل ،تہذیب و ثقافت کے ہتھیاروں سے کھیل رہا ہے اور شاہد صاحب نے اس کھیل کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے اور اس کھیل سے پیدا ہونے والی تنہائی ،رنج و الم کے علاوہ آشوب و انتشار شاہد صاحب کی نظموں میں نمایاں ہے۔غلام نبی شاہد کی نظمیں سماج اور اس کے آس پاس کی نئی فضا کی نئی صورتحال سے مزین ہے ۔انھوں نے سماجی کی خستہ حالی کو ہی نہیں صرف اپنی نظموں میں پرویا ہیں بلکہ عصری مسائل پر بھی ان کی گہری نگاہ ہے۔شاہد صاحب کی نظمیں درد و کرب کی خمیر سے تیار ہوئی ہے جس کی خوشبو سے ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔جو انفرادی کرب اور اجتماعی زندگی کا ایک مکمل خاکہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور پھر یہ خاکہ ہمیں اپنی تحویل میں لیتا ہے۔یہ خاکہ صرف اور صرف صداقت کے رنگ سے بنایا گیا ہے۔
’’چاند گواہ ہے‘‘ کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ غلام نبی شاہد ایک فطری شاعر ہیں ان کی نظمیں فطرت کی مختلف جھلکیاں پیش کرتی ہیں ۔شاہد صاحب نے ’’چاند کو گواہ ہے‘‘ رکھ کر زمین کے مسائل ،زمین پر رہنے والے لوگوں کے مصائب و مشکلات اور ان کی نفسیات کو چاند کی روشنی میں منصہ شہود پر لانےکی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔نظم ’’چاند گواہ ہے‘‘کا یہ بند ملاحظہ فرمائیں ۔
اس صدی میں/میرا بھی غم شامل کرلو اس صدی کا میں آخری لمحہ ہوں
یہ صدی صرف/تمہاری ہی نہیں ہے اس صدی میں/بہت کم زندہ رہا
مرا بہت ہوں/چاند سے پوچھو چاند گواہ ہے!