Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

حیا کی یک طرفہ دہلیز۔ بیٹی کو نصیحت بیٹے کو آزادی! ہمارا معاشرہ وہ آئینہ ہے جس میں ہر چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے

Mir Ajaz
Last updated: June 26, 2025 10:20 pm
Mir Ajaz
Share
15 Min Read
SHARE
مسعود محبوب خان
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کے ہر پہلو کو سنوارتا ہے۔ظاہری ہو یا باطنی، فرد کا ہو یا معاشرے کا۔ دین اسلام نے ’’حیا‘‘ کو ایمان کا حصّہ قرار دیا ہے اور یہ تعلیم دی کہ حیا صرف عورت کی زینت نہیں بلکہ ہر مؤمن مرد و عورت کی بنیادی صفت ہے۔ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘ مگر افسوس کہ ہم نے اس پاکیزہ صفت کو صنفی حدود میں مقید کر دیا۔ قرآنِ کریم میں سب سے پہلا حکم، نگاہیں نیچی رکھنے کا، مردوں کے لیے نازل ہوا: ’’ اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اللّٰہ اس سے با خبر رہتا ہے۔‘‘ (القرآن ۔ سورۃ النور: 30)
اسلامی تعلیمات نے مرد و عورت دونوں کو طہارتِ نفس، نگاہ کی حفاظت اور باہمی احترام کا حکم دیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ، ہم نے دینی احکام کو ثقافتی تعصبات کی دھند میں چھپا دیا۔ ہم نے شرم و حیا کو عورت کی زنجیر بنا دیا اور مرد کے کردار سے غفلت برتی۔ نتیجتاً ایک ایسا ماحول تشکیل پایا جہاں پردے کی ذمّہ داری تو عورت پر تھوپی گئی، مگر نگاہوں کی بے راہ روی کو نظر انداز کر دیا گیا۔ یہ مضمون اسی یک طرفہ سوچ کے خلاف ایک فکری صدا ہے،جس کا مقصد صرف تنقید نہیں بلکہ اصلاح ہے، صرف سوال نہیں بلکہ جواب کی تلاش ہے، صرف بیداری نہیں بلکہ عملی اقدام کی دعوت ہے۔
’’پردہ کرو، لباس سنبھالو، عورت ہو،نرم و نازک، حیاء کا پیکر!‘‘ یہ الفاظ صرف مردوں کے لبوں کی زینت نہیں ہوتےبلکہ عورتیں انہیں پوری شدّت کے ساتھ دہراتی ہیں،گویا یہ جملے اُن کے اپنے وجود کا جُز بن چکے ہوں۔ یہ آوازیں ہمارے ماحول میں اس قدر رچ بس گئی ہیں کہ ان پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔ ان میں نہ کوئی نئی بات ہے، نہ کوئی نیا زاویہ۔ یہ وہ صداؤں کا تسلسل ہے جو صدیوں پرانے نظامِ فکر سے جُڑا ہوا ہے۔ یہ الفاظ محض جملے نہیں یہ ایک سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ایسی سوچ جو عورت کے وجود کو کسی سانچے میں ڈھالنے پر تُلی ہوئی ہے۔ ایسا سانچہ جس میں ’’نرمی‘‘ کو کمزوری بنا دیا گیا، ’’عصمت‘‘ کو قید کا بہانہ اور ’’پردہ‘‘ کو خاموشی کا مترادف ٹھہرایا گیا۔
ہزاروں برس سے پروان چڑھتی روایات نے عورت کو ایک ایسے کردار میں قید کر دیا ہے، جہاں اس کی شناخت، اس کی آزادی، اس کی مرضی سب کچھ ایک مخصوص دائرے کے اندر سمیٹ دیا گیا ہے۔ نسل در نسل یہ پیغام یونہی منتقل ہوتا رہا، کبھی مذہب کے نام پر، کبھی ثقافت کی آڑ میں تو کبھی عزّت و غیرت کے بلند بانگ دعوؤں کی اوٹ میں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی عورت اپنے لباس، اپنی چال، اپنی آواز، اپنے خوابوں پر سوال اُٹھتے دیکھتی ہے تو اسے یہ سب کچھ غیر معمولی نہیں لگتا۔ کیونکہ اسے تو بچپن سے سکھایا گیا ہے کہ معاشرے کی عزّت اس کی چادر میں ہے، اس کی خاموشی میں ہے اور اس کے پیچھے جھکی پلکوں میں ہے۔ یہ نظام خاموشی سے زندہ ہے، بولنے والے تو بہت ہیں، مگر سننے والے کم اور جو سننے لگیں، وہ سوچنے لگتے ہیں اور جو سوچنے لگیں۔وہی تبدیلی کی پہلی کرن بن سکتے ہیں۔
کیا تم نے کبھی کسی باپ کو، کسی ماں کویا کسی بزرگ بھائی کو یہ کہتے سنا ہے کہ ’’بیٹا! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللّٰہ نے پردے کا حکم سب سے پہلے مرد کو دیا ہے؟‘‘۔ ’’کیا تمہیں علم ہے کہ نگاہیں نیچی رکھنے کا، اپنی نظریں پاک رکھنے کا اور اپنے نفس کی حفاظت کا پہلا حکم تمہارے لیے ہے، نہ کہ عورت کے لیے؟‘‘۔ ہم نے بیٹیوں کو تو صدیوں سے سکھایا ہے کہ نظریں جھکاؤ، آواز دھیمی رکھو، چادر سنبھالو، خود کو چھپاؤ۔ مگر کیا بیٹوں کو بھی کبھی یہ سبق دیا؟ کیا انہیں کبھی سکھایا کہ کسی عورت کی عزّت صرف اُس کی چادر سے نہیں بلکہ تمہاری نظر، تمہاری نیت اور تمہارے کردار سے وابستہ ہے؟
ہم نے حیا کا بوجھ ہمیشہ عورت کے سر رکھا، مگر مرد کو کبھی آئینے کے سامنے کھڑا نہیں کیا۔ کبھی نہیں پوچھا کہ جب تمہاری نگاہ کسی کو بے چین کرتی ہے، جب تمہارے الفاظ زہر بن کر لڑکی کے دل میں اُترتے ہیں تو اُس کی حیاء پر زخم کون لگاتا ہے؟ کیا کبھی کسی لڑکے کی رہنمائی کی گئی کہ جب تمہیں کوئی بلا رہا ہو، کسی تعلق کی آڑ میں تمہیں اپنی طرف کھینچ رہا ہو تو تمہیں اپنے آپ کو کیسے بچانا ہے؟ کیا نفس کی حفاظت کا ہنر سکھانے کے لیے کوئی استاد مقرر ہوا؟
ہم نے ہمیشہ بچیوں کو احتیاط، پردہ، غیرت، شرم، خوف ۔سب کچھ سکھایا، مگر بیٹوں کو صرف اختیار دیا، طاقت دی، بے خوفی دی، آزادی دی۔ یہ کیسا توازن ہے؟ یہ کیسا انصاف ہے؟ جہاں ایک ترازو کا پلڑا ہر بار جھکتا ہے، جہاں کردار کی ترازو میں صرف عورت کا وزن تولا جاتا ہے اور مرد؟ وہ تو صرف ناظر ٹھہرتا ہے، حاکم، جج اور کبھی کبھی مجرم بھی ۔مگر بےقصور مانا جاتا ہے۔ جب تک ہم حیا کے سبق کو صنف کی قید سے آزاد نہیں کرتے، جب تک ہم بیٹوں کو نگاہوں کی طہارت نہیں سکھاتے، تب تک یہ معاشرہ صرف ’’عورت کی حفاظت‘‘ کے نام پر عورت کی قید کرتا رہے گا اور مرد آزاد گھومتا رہے گا، بےنقاب، مگر بااختیار۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، جہاں سنجیدہ جرائم کو شرارت کا نام دے دیا جاتا ہے، جہاں کسی معصوم کی چیخ ایک لطیفہ سمجھی جاتی ہے اور جہاں جرم پر شرمندہ ہونے کے بجائے گفتگو پر شرم آتی ہے۔ ہم نے اپنی زبانیں عورت کے لباس، اس کی زینت، اس کی چال اور اس کے لب و لہجے پر تھپڑ کی مانند برسائیں، مگر مرد کے کردار، اس کی نیت اور اس کی نگاہ کی تربیت کو بھول بیٹھے۔ ہم بھول گئے کہ درخت کو کاٹ دینا کافی نہیں، جب تک جڑ سلامت ہے، شاخیں پھر اُگ آئیں گی اور یہ جڑیں وہی فرسودہ سوچیں ہیں جنہوں نے ظلم کو ‘معمول بنا دیا۔
ہمارا معاشرہ وہ آئینہ ہے جس میں ہر چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے، مگر کوئی بھی اپنی صورت پہ انگلی رکھنے کو تیار نہیں۔ اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لیے دوسروں کو قربانی کا بکرا بنانا، ہماری فطرت بن چکی ہے۔ پوچھا جائے تو یہی سوال اُٹھتا ہے، کیا جن معصوم بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا، ان پر پردہ فرض تھا؟ کیا جن خواتین کو عزّت سے محروم کیا گیا، ان کا لباس واقعی باعثِ محرومی تھا؟ کیا جانور بھی پردے کے پابند ہیں؟ کیا مُردوں کو بھی محرم کے ساتھ دفنایا جانا چاہیے؟ کیا یہ سب کچھ محض ایک لباس پر منحصر ہے؟ اور اگر ہاں، تو کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ ایک کپڑا ہمیں راہِ راست سے ہٹا دیتا ہے؟ کیا ہماری غیرت اتنی ناپختہ ہے کہ وہ صرف عورت کے دوپٹے سے مشروط ہے؟
لباس کا شہوت سے کوئی تعلق نہیں۔اگر ایسا ہوتا تو وہ ننھے پھول، جنہوں نے ابھی بولنا تک نہ سیکھا تھا، ان پر وحشت کی داستانیں کیوں رقم ہوتیں؟ ہمیں ان سوالات کے جوابات تلاشنے ہوں گے، کیونکہ جب تک ہم اصل مسئلے کو پہچاننے سے انکار کرتے رہیں گے، تب تک ہر احتجاج بے معنی رہے گا اور ہر آنسو رائیگاں جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم محض تبصرہ نگار نہ بنیں بلکہ عملی قدم اُٹھانے والے بنیں۔ ہمیں تعلیم، تربیت، قانون اور شعور کے ذریعے وہ فضا بنانی ہوگی جہاں نہ صرف عورت، بلکہ انسان ہونے کا حق محفوظ ہو۔ جہاں مجرم شرمائےاور معصوم بےخوف جئیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں رک کر، سوچ کر اور ایک نئی راہ پر چلنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ تبدیلی تب ہی آتی ہے، جب ہم پہلا قدم خود اُٹھائیں۔
یہ وقت کی سب سے بڑی پکار ہے۔ایک صدا جو والدین کے ضمیر کو جگانے آئی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ماں باپ اپنی ذمّہ داری صرف کھانے، کپڑے اور تعلیم تک محدود نہ رکھیں بلکہ وہ اپنے بچّوں،چاہے بیٹا ہو یا بیٹی ۔دونوں کی جذباتی، ذہنی اور جسمانی تربیت کا بیڑا اُٹھائیں۔ وہ دور گزر چکا جب بلوغت کے موضوعات کو شرم، حیا یا معاشرتی روک کے پردے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جاتا تھا۔ اب وقت ہے کہ ان موضوعات پر نرمی، سمجھداری اور ہمدردی کے ساتھ گفتگو کی جائے۔ وقت آ چکا ہے کہ والدین اپنے بچّوں کے دلوں میں اتری ہُوئی الجھنوں کو محسوس کریں، ان کے سوالوں کو خاموش نگاہوں سے نہیں بلکہ شعور سے دُور کریں۔
ہر بچّے کے اندر ایک دنیا بستی ہے اور اس دنیا کو صرف وہی بہتر بنا سکتے ہیں جو اس کے سب سے قریبی ہوتے ہیں،یعنی اس کے والدین۔ ان کی راہنمائی، ان کی باتوں کو سننا، ان کی خاموشیوں کو سمجھنا اور وقتاً فوقتاً اُن کی ذہنی و جسمانی کیفیت پر گفتگو کرنا، یہ سب ایک محفوظ، باشعور اور باوقار نسل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ یہ وہ نسل ہونی چاہیے جو صرف جسمانی طور پر ہی نہیں بلکہ ذہنی اور اخلاقی طور پر بھی اتنی طاقتور ہو کہ کسی بھی درندہ صفت کی نگاہوں، باتوں یا حرکتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے۔ وہ نسل جو اپنی حفاظت صرف چادر یا دیواروں میں نہ دیکھے بلکہ علم، شعور، اعتماد اور رہنمائی کے ہتھیار سے لیس ہو۔
کیونکہ اب وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ درندے ہمارے آس پاس بےخوف گھوم رہے ہیں اور معصومیاں روز ان کی ہوس کا شکار ہو رہی ہیں۔ عصمت دری کے واقعات فقط خبروں میں نہیں، اب ہماری گلیوں، ہمارے اداروں، ہمارے گھروں کے سائے میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ اور اگر آج بھی ہم نے آنکھیں بند رکھیں تو کل نہ معاشرہ سلامت رہے گا نہ ملک کی ساکھ۔ تو پھر سوال صرف یہ ہے، اگر اب نہیں، تو کب؟ اگر ہم نہیں، تو کون؟ اب وقت ہے کہ ہم بطور والدین، بطور استاد، بطور معاشرہ اپنی ذمّہ داری قبول کریں، عملی قدم اُٹھائیں، تربیت کو عبادت سمجھیں اور بچّوں کے محفوظ، روشن مستقبل کے لیے وہ بنیاد رکھیں جس پر انسانیت اعتماد سے سر اُٹھا سکے۔
اسلام ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کی جسمانی، روحانی، ذہنی اور معاشرتی تربیت کا جامع نظام پیش کرتا ہے۔ حیا کو ایمان کا جز قرار دے کر، قرآن و سنّت نے مرد و عورت دونوں کو اس کی پابندی کا حکم دیا۔ ’’ اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللّٰہ اس سے با خبر رہتا ہے۔ ‘‘(القرآن ۔ سورۃ النور: 30-31)۔ یعنی ایمان والے مردوں اور عورتوں دونوں کو نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنے نفس کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام نے جہاں عورت کو وقار، عزّت اور تحفّظ عطا کیا، وہیں مرد پر بھی اخلاق، عدل، غیرت اور ذمّہ داری کا بار رکھا۔
حقیقی اسلامی معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں تربیت صرف عورت کو پردے کی تلقین پر ختم نہ ہو، بلکہ مرد کو بھی کردار کی صفائی، نگاہ کی پاکیزگی اور نیت کی درستی کی تعلیم دی جائے۔ جہاں بیٹے کو یہ سکھایا جائے کہ عورت کو ’’تحفہ‘‘ نہیں، ’’امانت‘‘ سمجھا جائے اور جہاں والدین صرف جسمانی ضرورتوں ہی نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی ترقی کا بھی خیال رکھیں۔
اب وقت ہے کہ ہم اسلام کی اصل روح کو سمجھ کر اپنی نسل کی تربیت کریں کہ وہ نسل پروان چڑھے جو کردار میں مضبوط، نیت میں پاکیزہ اور حیا میں متوازن ہو۔نہ صرف عورت کے لیےبلکہ پورے معاشرے کے لیے۔ کیونکہ جب تک مرد اور عورت، دونوں اپنے دائرہ کار میں ربّ کے احکامات پر چلنے لگیں، تب ہی ایک ایسا معاشرہ ممکن ہے جہاں نہ کوئی مظلوم ہوگا، نہ کوئی ظالم بلکہ سب خالق کے سامنے جواب دہ ہونے کا شعور رکھتے ہوں گے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بصیرت، ہمت اور اخلاص عطاء فرمائے تاکہ ہم اپنے گھروں میں ایک ایسی نسل تیار کر سکیں جو نورِ نبوی سے روشن ہو اور عدلِ الٰہی کا مظہر بن سکے۔ آمین
[email protected]
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
سوپور میں ملک دشمن سرگرمیوں کی پاداش میں تین افراد گرفتار
تازہ ترین
مقید علیحدگی پسند رہنما شبیر احمد شاہ کی حالت مستحکم،مناسب طبی علاج حاصل کر رہے ہیں :جیل انتظامیہ
تازہ ترین
ہند-چین سرحد پر مستقل امن کے لیے پیچیدہ مسائل کا حل ضروری: راجناتھ
برصغیر
ادھم پور تصادم: جنگلی علاقے میں دوسرے روز بھی تلاشی آپریشن جاری
تازہ ترین

Related

مضامین

اسلامی سالِ نو اور احتسابِ نفس فکرانگیز

June 26, 2025
مضامین

گرمی کی لہر اور اخلاقی حدود کا لحاظ معاشرت

June 26, 2025
مضامین

انصاف کا فقدان عالم امن کے لئے نقصان

June 26, 2025
کالممضامین

دل کے اطمینان اورتندرستی کے لئےسکون ضروری فہم وفراست

June 25, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?