معاشرت
معراج وانی ،کنگن
معاشرے کی پہلی اکائی ایک گھر ہوتا ہے۔ جیسے اس میں رہنے والے ہوں، ویسا ہی اس معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ گھر ایک ایسی ابتدائی درسگاہ ہے جہاں بچوں کی شخصیت، سوچ، عادات اور اخلاقی اقدار کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ بچوں کی پہلی درسگاہ ان کی ماں کی گود اور باپ کی صحبت ہوتی ہے، جہاں وہ نہ صرف زبان سیکھتے ہیںبلکہ طرزِ گفتار، حسنِ سلوک، نظم و ضبط اور سماجی رویوں کا عملی سبق بھی حاصل کرتے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بچوں کو جو زبانی طور پر سکھایا جاتا ہے، اس کا اثر اتنا گہرا نہیں ہوتا جتنا اس بات کا جو وہ اپنے بڑوں سے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ بچے بہت اچھے نقال ہوتے ہیں۔ وہ وہی کرتے ہیں جو وہ ماحول سے جذب کرتے ہیں۔ اسی لیے گھر کا ہر فرد جب بھی کوئی بات کرے یا کوئی عمل انجام دے، اسے یہ خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ اس کے سامنے نقالی کرنے والی آنکھیں اور کان موجود ہیں۔ کردار سازی کا عمل محض نصیحتوں سے مکمل نہیں ہوتا، بلکہ عملی مثال کے ذریعے ہی بچے سیکھتے ہیں۔ہر بچہ ذہین اور فطرتاً سیکھنے کا شوقین ہوتا ہے۔ وہ ایک کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے، جس پر جو کچھ لکھا جائے، وہ ثبت ہو جاتا ہے۔ یہ اس کے گھر کا ماحول ہی ہے جو اس کاغذ پر پہلا لفظ تحریر کرتا ہے۔ اگر ماحول محبت، اخلاق، علم اور حسنِ کردار سے بھرپور ہو تو بچہ بھی انہی اوصاف کا آئینہ دار بنتا ہے۔ لیکن اگر ماحول میں بدتمیزی، بے رخی یا غلط اقدار موجود ہوں تو بچے کی شخصیت انہی منفی اثرات سے متاثر ہوتی ہے۔
بچہ اتنا معصوم ہوتا ہے کہ اگر اسے آلو کو گوشت اور دودھ کو زم زم بتایا جائے تو وہ من و عن اسی بات کو سچ مان لیتا ہے۔ وہ ہر بات کو بھروسے اور اعتبار سے قبول کرتا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی مصروفیت یا لاپرواہی کی وجہ سے انہیں وہ کچھ سکھا بیٹھتے ہیں جو بعد میں جب ان کی زبان یا عادت سے ظاہر ہوتا ہے تو ہم خود دانتوں تلے انگلی دبا لیتے ہیں۔جو بچے بُری عادتوں، بُرے دوستوں یا غلط راستوں کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ سیدھے آسمان سے نہیں اُترتے۔ ان کی حالت دراصل ہماری اپنی عدم توجہی، بے وقت مصروفیت اور وقت پر رہنمائی نہ کرنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ان کی تربیت، ان کی راہنمائی اور ان کی بہتر پرورش ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نے یہ فرض وقت پر ادا نہ کیا تو نہ صرف دنیا میں پشیمانی ہمارا مقدر بنے گی بلکہ آخرت میں اللہ کے عذاب اور دو جہانوں کی رسوائی کے بھی حقدار بن سکتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ سنا ہے کہ والدین کی نافرمانی پر اللہ کی سخت پکڑ ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اگر ہم اپنے بچوں کے حقوق ادا نہ کریں، خاص طور پر ان کے سب سے اہم حق ’’صحیح تربیت‘‘ سے غفلت برتیں، تو کیا اللہ تعالیٰ کی پکڑ ہم پر نہیں ہوگی؟آئیے! ہم آج ہی سے اپنے اس فریضے کو پہچانیں اور عزم کریں کہ اپنے بچوں کو وقت دیں گے، انہیں سنیں گے، سکھائیں گے اور عمل سے راہ دکھائیں گے۔ ورنہ اگر یہ سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا تو بعد میں صرف افسوس، پچھتاوا اور حسرت باقی رہ جائے گی۔
���������������