عظمیٰ نیوزسروس
جموں//اپنی پارٹی کے سربراہ سید محمد الطاف بخاری نے بی جے پی اور این سی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ان دونوں جماعتوں کو عوام، جنہوں نے انہیں مینڈیٹ دیا، جو مایوس کردیا ہے۔انہوں نے جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کرنے کے اپنے مطالبے دہراتے ہوئے مرکز پر زور دیا کہ وہ جموں کشمیر کا سٹیٹ ہوڈ بغیر مزید تاخیر کے بحال کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا جموں کشمیر کے لوگوں پر کوئی احسان نہیں ہوگا ، بلکہ یہ ان کا وہ حق بحال کرنے کے مترادف ہوگا، جسے 5 اگست 2019 کو چھین لیا گیا تھا۔یہ باتیں سید محمد الطاف بخاری نے جموں پارٹی آفس میں منعقدہ ایک تقریب کے موقعے پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہیں۔ تقریب کا اہتمام پارٹی میں نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے کیا گیا تھا۔ نئے ممبران میں کسان اینڈ ٹریکٹر یونین کے صدر محمد عارف اور دیگر اشخاص شامل تھے۔ جبکہ اپنی پارٹی کے ایک سابق رکن راج کمار للوترا، جو پارٹی چھوڑ کر چلے گئے تھے، نے آج دوبارہ پارٹی جوائن کرلی۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے سید محمد الطاف بخاری نے حکمراں این سی اور اپوزیشن بی جے پی پر تنقید کی اور کہا کہ ان جماعتوں نے اپنے ووٹروں کو مایوس کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ دونوں پارٹیوں نے ان لوگوں کو مایوس کیا ہے جنہوں نے انہیں اسمبلی انتخابات میں ووٹ دیا تھا۔ جموں میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر بی جے پی کو ووٹ دیا اور اسے 29سیٹیں ملیں، اسی طرح وادی میں لوگوں کی بھاری اکثریت سے این سی کو ووٹ دیا، اس نے 50سیٹیں حاصل کیں تاہم دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے ووٹروں کو مایوس کیا ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ اگر انتخابات زمینی صورتحال میں کوئی بہتری لانے میں ناکام رہے ہیں، تو ہم کہہ سکتے ہیں انتخابات سے پہلے لیفٹنٹ گورنر کا دور ہی اچھا تھا۔ کم از کم اِس وقت کی منتخب حکومت کے مقابلے میں اس وقت زیادہ موثر حکمرانی لوگوں کو میسر تھی۔ایک سوال کے جواب میں سید محمد الطاف بخاری نے کہا کہ جموں اور وادی کے لوگوں کے درمیان علاقائی وجوہات کی بنا پر پہلے بھی اختلافات رہے ہیں لیکن کبھی بھی دونوں خطوں کے لوگوں کے درمیان فرقہ وارانہ بنیادوں پر اختلافات نہیں تھے اور نہ ہی کبھی جموں یا وادی میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر ووٹنگ ہوئی ہے۔ البتہ اسمبلی انتخابات میں ہمیشہ جموں کے لوگ اس پارٹی کو ووٹ دیتے تھے، جس کی سرکار مرکز میں قائم ہوتی تھی۔ جبکہ وادی کے لوگ مرکز میں بر سر اقتدار جماعت کے خلاف ووٹ دیتے رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مذہب کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دونوں چیزیں بنیادی طور پر الگ ہیں اور ہمیشہ الگ ہی رہنے چاہئیں۔ مذہب کے نام پر لڑا جانے والا کوئی بھی الیکشن جمہوریت کے کے حق میں نہیں ہوسکتا ہے۔ اس طرح کی کوششیں ہمیشہ جمہوریت کو کمزور کرنے کا باعث بنتی ہیں۔مرکزی حکومت سے جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کرنے پر زور دیتے ہوئے، اپنی پارٹی کے سربراہ نے کہاکہ وزیر اعظم مودی نے جموں و کشمیر کے لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا۔ وہ نہ صرف ملک بلکہ دنیا کے سب سے بڑے لیڈروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے لوگوں کو یہ تاثر نہیں دیا جانا چاہیے کہ وزیر اعظم نے ان سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں ہوا۔انہوں نے مزید کہاکہ سٹیٹ ہوڈ کی بحالی جموں و کشمیر کا حق ہے، اس کی بحالی کو مرکز کے احسان کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے، بلکہ اس حق کی واپسی کے طور پر دیکھا جانا چاہئے جو 5اگست 2019 کو غیر منصفانہ طور پر چھین لیا گیا تھا۔