محمد امین میر
وادیٔ کشمیر کے سرسبز و شاداب دیہی علاقوں میں، جہاں کبھی دھان کے کھیت وادی کی رُتوں کے سنگ ساز کی طرح بہتے تھے، ایک خاموش مگر گہرا تغیّر رونما ہو رہا ہے۔ ایک نئی زرعی حقیقت جنم لے رہی ہے جہاں سیب کے باغات نے روایتی دھان کی زمینوں کو نگلنا شروع کر دیا ہے اور یہ باغات اکثر خاردار تاروں سے گھیر دیے گئے ہیں۔ انہی تاروں کے اندر کہیں چھپی ہوئی دھان کی زمینیں آج تنہائی، محرومی اور قانونی بےبسی کی علامت بن چکی ہیں۔یہ تبدیلی صرف زمین کے استعمال کی کہانی نہیںبلکہ کاشتکاروں کے روزگار، ان کی معاشی خودمختاری، اور ان کے بنیادی قانونی حقوق کے زوال کی داستان ہے۔
سیب کے باغات کا خاموش قبضہ : گزشتہ دو دہائیوں میں کشمیر میں سیب کی معیشت نے حیران کن ترقی کی ہے،بازاری منافع، سرکاری سبسڈی، اور زمین کی قدر میں اضافے نے زمین داروں کو اپنی دھان کی زمینیں منافع بخش سیب کے باغات میں تبدیل کرنے پر اکسایا ہے۔ اگرچہ زرعی تنوع کسی بھی معیشت کے لیے مثبت علامت سمجھا جاتا ہے، مگر ان باغات کے گرد خاردار تاریں لگانا ایک نئے زرعی بحران کو جنم دے رہا ہے۔
تصور کریں، ایک کسان کے پاس ایک چھوٹا سا دھان کا قطعہ ہے جو پہلے کھلے دیہی راستوں سے جُڑا ہوا تھا۔ اب اردگرد کے زمین داروں نے اپنی زمینیں باغات میں تبدیل کر کے ان کے گرد خاردار تاریں لگا دی ہیں۔ ان راستوں کو بند کر دیا گیا ہے جو کبھی کھلے عوامی گزرگاہیں تھیں۔ کسان کو اپنی ہی زمین تک پہنچنے کے لیے اب میلوں کا چکر کاٹنا پڑتا ہے، خاردار تاروں کے بیچ سے گزرنا یا کسی اور کی ملکیت میں داخل ہونا—جو کہ نہ صرف قانونی خطرہ ہے بلکہ سماجی تصادم کی بھی راہ ہموار کرتا ہے۔
آبی نیٹ ورک کی تباہی : کشمیر میں دھان کی کاشت کاری ہمیشہ کوہل (روایتی چھوٹے آبی نالے) پر منحصر رہی ہے۔ یہ نالے برف پگھلنے کے پانی کو دور دراز کے کھیتوں تک پہنچاتے تھے اور ان کی صفائی و حفاظت دیہی برادری کی اجتماعی ذمہ داری ہوتی تھی۔ مگر اب ان نالوں پر بھی سیب کے باغات نے قبضہ کر لیا ہے۔ کئی کوہل یا تو خاردار باڑ کے اندر چلے گئے ہیں یا ان کا پانی موڑ دیا گیا ہے تاکہ باغات کو ’’زیادہ پانی‘‘ سے بچایا جا سکے۔نتیجہ یہ کہ دھان کی فصل وقت پر پانی نہ ملنے سے سوکھ جاتی ہے۔ یہ خشک سالی نہیں بلکہ انسان ساختہ رکاوٹیں ہیں جو کسان کی محنت کو برباد کر رہی ہیں اور کیونکہ ان کوُلز کا کوئی قانونی ریکارڈ نہیں کہ وہ کہاں سے گزرتے تھے، کسان کو نہ تو ان کی صفائی کی اجازت ملتی ہے اور نہ ہی پانی لینے کا حق۔
قبضہ ہے، مگر راستہ نہیں۔ ایک قانونی تضاد : اس پورے بحران کی جڑ ایک افسوسناک قانونی ستم ظریفی ہے کہ کسان اپنی زمین کا مالک ہے، مگر وہاں پہنچ نہیں سکتا۔ یہ نہ صرف 1882 کے بھارتی ’’ایزمنٹ ایکٹ‘‘(Easements Act) کی خلاف ورزی ہے بلکہ قدرتی انصاف کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔ایزمنٹ ایکٹ کے مطابق اگر کسی کی زمین دوسروں کی زمین سے گھری ہو تو اسے وہاں تک رسائی کا حق حاصل ہے،خواہ وہ ضرورت کے تحت ہو، پرانی روایت کے تحت یا باقاعدہ تحریری معاہدے کے ذریعے۔ مگر کشمیر کے دیہی علاقوں میں چونکہ بیشتر روایتی راستے کبھی تحریری ریکارڈ میں نہیں آئے، اس لئے ان حقوق کو قانونی طور پر ثابت کرنا کسان کے لیے تقریباً ناممکن ہے اور جب تک تفصیلی ’’تاتیمہ شجرہ‘‘ (یعنی سروے نمبرات کی ذیلی نقشہ بندی) تیار نہیں ہوتی، تب تک زمین کے اصل راستے سرکاری ریکارڈ میں موجود ہی نہیں ہوتے۔ایسے میں پٹواری یا تحصیلدار اکثر کہتے ہیں: ’’ریکارڈ میں راستہ درج نہیں ہے‘‘ اور کسان کو عدالتی چارہ جوئی کی راہ دکھا دیتے ہیں،جو مہنگی، طویل اور غیر یقینی ہوتی ہے۔ اس دوران فصلیں برباد ہو جاتی ہیں اور دھان کی زمینیں ویران پڑی رہتی ہیں۔
محکمہ مال کی خاموشی : محکمہ مال، جس کی اولین ذمہ داری ہے کہ زمین تک رسائی کے حقوق کی نگرانی کرے، اس معاملے میں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ پٹواری اور گرداور نہ تو موقع پر جا کر تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی ایسی رپورٹیں لکھتے ہیں جن سے بااثر زمین دار ناراض ہوں۔ تحصیل سطح کی عدالتیں اکثر ایسے کیسوں کو ’’سیول نوعیت کا‘‘ کہہ کر ٹال دیتی ہیں اور کسان کو عدالتی دائرے میں دھکیل دیتی ہیں جہاں اُس کی آواز کمزور پڑ جاتی ہے۔یوں زمین کے استعمال میں تیزی سے تبدیلی ہو رہی ہے، مگر زمین کے حقوق اُس رفتار سے نہیں بدل رہے۔ نہ موقعے کی جانچ ہو رہی ہے، نہ پانی کے راستے بحال ہو رہے ہیں، نہ تاتیمہ شجرہ میں ترمیم۔ نتیجتاً کسان کاغذ پر زمین کا مالک ہے، مگر حقیقت میں وہ زمین کے لیے اجنبی بن چکا ہے۔
سماجی رشتوں کا انہدام : یہ مسئلہ صرف زمین یا پانی تک محدود نہیں بلکہ یہ دیہی معاشرے کی بنیادی روح پر ضرب ہے۔ صدیوں سے کشمیر کے دیہات روایتی اخوت اور اجتماعی خدمت کے اصولوں پر قائم تھے،چاہے وہ کوہل کی صفائی ہو، راستوں کی فراہمی، یا مویشیوں کا آنا جانا، سب کچھ اجتماعی رضامندی سے طے پاتا تھا۔اب خاردار باڑوں نے ان رسموں کو پاش پاش کر دیا ہے۔ آئے دن معمولی جھگڑے،کبھی پانی کی نالی پر، کبھی راستے پر،پولیس میں شکایت، پنچایتوں میں مقدمے اور برادری میں دائمی دشمنی میں بدل رہے ہیں۔ زمینی مقابلہ بازی نے دیہی سادگی اور آپس کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچا۔
انتظامیہ کے لیے فوری اقدامات ۔یہ بحران ناقابلِ حل نہیں، مگر اس کے لیے بروقت، حساس اور مقامی سطح پر اقدامات ضروری ہیں:
۱۔ روایتی راستوں کی نقشہ بندی اور ریکارڈ میں اندراج: تحصیلداروں کو چاہیے کہ تمام دیہی راستے اور پانی کے نالے ’’تاتیمہ شجرہ‘‘ پر درج کروائیں تاکہ کوئی زمین بند نہ ہو۔
۲۔ تاریخی رسائی کے حقوق کی قانونی توثیق۔ جہاں ماضی میں رسائی کا استعمال ہوا ہو، وہاں محکمہ مال کو لازمی طور پر ایزمنٹ کے حقوق تسلیم کرنے چاہئیں۔
۳۔ روایتی کوُلز کی بحالی: محکمہ آبپاشی، مال اور پنچایتیں مل کر بند نالوں کو بحال کریں اور انہیں مستقبل میں بند کرنے سے روکیں۔
۴۔ خاردار تاروں پر ضابطہ بندی: مقامی انتظامیہ کو چاہیے کہ ہر ایسی باڑ پر پابندی لگائے جو کسی دوسرے کو اُس کی زمین تک جانے سے روکتی ہو۔
۵۔ قانونی آگاہی اور مفت قانونی معاونت: کسانوں کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہ کیا جائے اور ان کی مدد کے لیے مفت قانونی خدمات فراہم کی جائیں۔
کھیتی کا حق، انصاف کا سوال : کشمیر کی زرعی معیشت کی اس تبدیلی میں اگرچہ سیب کی کاشت ترقی اور دولت کی علامت بن چکی ہے، لیکن اس ترقی کی قیمت کسی کے حقِ زمین، حقِ پانی اور حقِ گزر سے ادا نہیں کی جا سکتی۔ جو کسان آج خاردار تاروں میں قید ہے، وہ صرف اپنی زمین نہیں کھو رہا بلکہ ایک پورے معاشرتی نظام کی جڑوں سے کٹتا جا رہا ہے۔اگر کشمیر کی حکمرانی کی مشینری نے اب بھی اس مسئلے پر توجہ نہ دی، تو وہ صرف آخری دھان کے کھیتوں ہی کو نہیں بلکہ اپنی اخلاقی ذمہ داری کو بھی کھو بیٹھے گی۔ زمین کے ساتھ رسائی، پانی اور کھیتی کا حق ناقابلِ تنسیخ ہے،اگر ان کو نظر انداز کیا جائے تو ایسی ترقی دراصل استحصال بن جاتی ہے۔
��������������