سید مصطفیٰ احمد،بڈگام
کچھ دنوں سے میں Shankar IAS Academy کی ماحولیات پر شائع کئی گئی ان کی شاہکار کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اس کے علاوہ The Hindu Publications House کی طرف سے چھپنے والے مختلف میگزین کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسان کی لالچ کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اسلام میں بھی اس بات کو بڑے واشگاف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو اگر ایک وادی سونے کی دی جائے تو وہ دوسری کی چاہت کرتا ہے اور اس طرح یہ لالچ کبھی ختم نہیں کا نام نہیں لیتی ہے۔ ہندوستان کے مؤقر اخبار The Indian Express سے انتخاب کیا گیا ایک مضمون جو گیارہویں جماعت کی انگریزی کتاب میں شائع کیا گیا ہے،پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مضمون لگ بھگ تیس سال پہلے تحریر کیا گیا تھا۔ اس مضمون میں ہمارا دھیان اس بات کی طرف مبذول کرواتے ہوئے نصیحت کی گئی ہے کہ زمین بیمار ہے۔ وہ اس بیمار شخص کی طرح ہے جس کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے وہ کچھ بھی چھونے اور گلے سے اُتارنے سے قاصر ہے۔ اس کے علاوہ مہاتما گاندھی کے الفاظ بھی اس سچ کو مزید تقویت فراہم کرتے ہیں کہ زمین ہر شخص کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے لیکن انسان کی لالچ کا اس کے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔ گاندھی جی کی بات کو میں نے یہاں اپنے اندازے سے تحریر کیا ہے۔ ان کی بات میں ایسا دم ہے کہ ہر زمانے میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ واقعی جب انسان انسانیت کے شرف سے دستبردار ہوجاتا ہے تو وہ جانور بن جاتا ہے۔ انسانی روپ میں وہ درندوں جیسی حرکتیں انجام دیتا ہے۔ وہ ہر چیز کو نفع اور نقصان کے آئینے سے دیکھنے کا عادی بن جاتا ہے جس سے اس کی موت کے فیصلے آسمانوں سے صادر ہوجاتے ہیں۔ جب کم سے کم ضروریات زندگی صرف فائدے اور لالچ کی گندی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، پھر موت اور تباہیوں کا منہ کو چڑانے والا رقص شروع ہوجاتا ہے جو انسان کا خود بھرپا کیا ہوتا ہے۔ مزید برآں انسان کے پاس ایک ہی آپشن میسر
ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنے پیر اِدھر اُدھر مارے لیکن بےسود۔ یہی حالت ان قوموں کی ہوتی ہے جو کھلواڑ اور تباہی کے باب معصومیت کے لبادے اوڑھ کر انجام دیتے ہیں۔مندرجہ ذیل سطروں میں اس بابت مزید باتیں تحریر کی جارہی ہیں۔
ضروریات زندگی کا لالچ کا روچ دھار لینا،جیسے کہ مندرجہ بالا سطروں میں لکھا گیا ہے، ممالک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ بھروسے کے دھاگے ٹوٹ جاتے ہیں اور انسان حیوان بن جاتا ہے۔ آج جہاں پر نظر پڑتی ہے ہر جگہ لالچ کے غلیظ کیڑے ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہے۔ کئی پرندوں اور جانوروں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔وہ اس دنیا سے رخصت کر دیے گئے ہیں۔ ان کی موت پر اب صرف سیاستے ہوتی ہیں۔ الفاظ کے جادوگر الفاظ کے ڈھیر لگا دیتے ہیں لیکن دل میں انہی جانوروں، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کو چور بازار میں بیچنے کی سازشیں پنپ رہی ہوتی ہیں۔ ہوا، پانی اور مٹی اب زہریلے بن گئے ہیں۔ وجہ صرف ایک ہے وہ انسان کا لالچ کا چولا پہن لینا۔ ہوا کی اہمیت کو بیان کرنے میں عمر بیت جائےگی لیکن تعریف اور اہمیت کے دروازے کبھی بند نے ہوگے لیکن انسان اپنی انا کی خاطر اور بےحسی کے خوبصورت کپڑے زیب تن کرکے خود کو بھی اور دوسروں کو دکھانے کی آڑ میں اپنی ہی قبر کھود رہا ہے۔ ہوا سانس لینے کے قابل نہ رہی۔ ہمارے پھیپھڑوں میں اتنا دھواں جمع ہوچکا ہے کہ اب یہ پہچان کے قابل نہ رہے۔ خون بھی سیاہ مادہ کی طرح ہوگیا ہے۔ Carbon dioxide کے علاوہ methane نے بچی کچی کسر پوری کر دی ہے۔ Sulphur dioxide کے بعد nitrogen oxides نے شہروں کے شہر تباہ کرکے رکھ دئیے ہیں۔ آکسیجن کے لئے اب انسان ترس رہا ہے۔ Rainforests کا گلا کاٹا جارہا ہے۔ The Hindu in School نے ان جنگلات کے بےتحاشا کٹاؤ کے بارے میں چونکا دینے والے اعلانات کیے ہیں۔ قارین سے گزارش ہے کہ وہ اس ہفتہ وار میگزین کا ضرور مطالعہ کریں۔ترقی کے نام پر Green Gold کا صفایا کرنا آج کے so-called ترقی یافتہ آدمی کا بنیادی مشغلہ ہے۔ سمندروں اور دریاؤں کا پانی اب زہر بن گیا ہے۔ مچھلیاں تو مر ہی رہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اب phytoplanktons بھی موت کے منہ میں چلے جارہے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ cyanobacteria پچاس فیصد سے زیادہ آکسیجن ہمارے لئے مہیا رکھتے ہیں۔ یہ بات اس سال کے UPSC کے preliminary examination میں بھی پوچھی گئی تھی۔ جب لالچ کی انتہا یہاں تک پہنچی ہو کہ جو چیزیں انسان کی بقا کی خاطر ازحد ضروری ہیں لیکن انسان جان بوجھ کر انجان بن کر ان کو نفع و نقصان کے آئینے سے دیکھ رہا ہو تب کوئی بھی ذی حس انسان یہ فیصلہ کرنے سے قاصر نہیں ہوسکتا ہے کہ تباہیوں کا میدان سجایا گیا ہے اور اب کچھ دیر کی بات ہے پھر انسان اپنے ہاتھوں کا گوشت کھانے ہر مجبور ہوگا اور واویلا کرتا ہوا اپنے کپڑے پھاڑ کر مٹی اپنے جسم پر مل کر اس بات سے روشناس ہوگا کہ معصوم جانوروں کا قتل کرتے کرتے میں نے اپنی گندی تن کی بدبو کو ان جانوروں کے مشک سے چھپاتا رہا لیکن آج میری تن کی خوشبو کا سامان اسی مٹی میں رکھا ہے جس کو زہر بنانے میں نے کوئی کسر نے چھوڑی۔ہم نے اپنی گیارہویں جماعت کی انگریزی کتاب میں ایک دفعہ امریکی جنرل کا ایک قول پڑھا تھا جس میں وہ کہتا تھا جب ساری مچھلیاں مرچکی ہونگی، تب سونا نہیں کھایا جاسکتا ہے۔ بس یہی آج کے انسان کا حال ہے۔
طوفان کو آنا ہے۔ ساحل سے دور بلوں میں چھپ کر اب لالچ کے برے اثرات زائل نہیں ہونگے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سدھار کی راہ پر دوڑنا شروع کیا جائے۔ انسان کو کسی سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اپنے اندر جھانکنے کے بعد خود سے سوال کرنا پڑے گا، میرے اعمال کا ترازو صرف گناہوں کے پلڑے کی طرف کیوں جھک جاتا ہے؟ بےچینی کا عالم جانے کا نام کیوں نہیں لے رہا ہے؟ میں نے امانت میں خیانت کیوں کی؟با وفا ہونے کی جگہ ہم نے منافقت کا رویہ کیوں اپنایا؟ سب کچھ ہونے کے باوجود ہم کیوں ہر چیز سے دستبردار کیے جارہے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات انسان کو خود سے ہی پوچھنے پڑیں گے۔ لاکھوں پرندوں اور جانوروں کے آشیانے اجھاڑنے کے بعد انسان کیسے چین کی نیند سو سکتا ہے ،یہی بات سمجھ سے بالاتر ہے! معصوموں کی چیخوں سے انسان نے ملائم سنگیت تیار کیا ہے، اس سے بڑھ کر تباہی کا معاملہ کیا ہوسکتا ہے۔ ذلت و رسوائی انسان کا مقدر بن گیا ہے کیونکہ انسان نے ضروریات زندگی کا لبادہ اوڑھ کر اس دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔ جنت کی آس لگائے ہوئے انسان دیوانوں کی دنیا میں جی رہا ہے۔ اے بدمست ہاتھی! تو دانائی کا منبع تھا لیکن تجھے کیا ہوا۔ تیرا ذکر تو آفاقی کتب میں بڑے شاندار الفاظ میں کیا گیا تھا لیکن تجھے کس کی بد دعا لگ گئی۔ Hope for the best but prepare for the worst کے مصداق اب بھی تھوڑی امید باقی ہے جس کا فائدہ اٹھا کر انسان اپنے راستے پھر سے سنوار سکتا ہے۔ مانا کہ یہ راہ اب کانٹوں کی آماجگاہ ہے لیکن چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ کے مصداق اب یہ راہ پر قدم پر ہوش و ہواس کے سارے دروازے کھولنے پر ہمیں اُجاگر کر رہی ہے۔ اے انسان! اب پھر سے اپنے اندر جھانکنے کی تھوڑی سی محنت کرکے اپنے حال اور مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کر۔ وقت اپنی مستی میں دوڑ رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہماری آنکھوں میں صرف لہو باقی رہے، ہم سب کو چاہئے کہ حالات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اپنے انجام کی فکر کرے۔
رابطہ۔7006031540
[email protected]