عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/جموں و کشمیر اور لداخ کی ہائی کورٹ نے حال ہی میں مرکزی وزارت داخلہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک 63سالہ خاتون کو پاکستان سے واپس بھارت لائے، جسے پہلگام میں ہوئے حملے کے بعد پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔
عدالت نے یہ فیصلہ اس کیس کی ’’غیر معمولی نوعیت‘‘کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا، کیونکہ متاثرہ خاتون تقریباً چار دہائیوں سے بھارت میں مقیم تھیں اور ان کے پاس طویل مدتی ویزا (LTV) بھی موجود تھا۔ہائی کورٹ نے 6 جون کو جاری کردہ حکم میں دس دن کے اندر عمل درآمد کی ہدایت دی ہے اور کیس کی اگلی سماعت کے لیے 1 جولائی کی تاریخ مقرر کی ہے۔
جسٹس راہول بھارتی نے یہ حکم خاتون رخسانہ رشید کی بیٹی فلک ظہور کی جانب سے دائر رِٹ پٹیشن پر جاری کیا۔پٹیشن میں خاتون کے شوہر، شیخ ظہور احمد نے عدالت کو بتایا کہ ان کی بیوی کا پاکستان میں کوئی وارث یا سہارا نہیں ہے، اور وہ کئی بیماریوں کا شکار ہیں۔عدالت نے انسانی حقوق کو مقدم جانتے ہوئے اس غیر معمولی قدم کا جواز پیش کیا۔
عدالت نے کہاحقوق انسانی زندگی کا مقدس ترین پہلو ہیں، اور ایسے مواقع آتے ہیں جب ایک آئینی عدالت کو SOS جیسے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں، چاہے کسی کیس کے میرٹ یا ڈی میرٹ بعد میں طے ہوں۔ اس لیے عدالت وزارت داخلہ، حکومتِ ہند کو ہدایت دے رہی ہے کہ درخواست گزار کو وطن واپس لایا جائے۔عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ چونکہ خاتون کے پاس طویل مدتی ویزا تھا، ان کی بے دخلی غیر منصفانہ ہو سکتی ہے، خاص طور پر جب انہیں کسی باضابطہ حکم کے بغیر ملک بدر کیا گیا۔
عدالت نے کہادرخواست گزار کے پاس اُس وقت LTV اسٹیٹس تھا، جو بذاتِ خود ان کی ملک بدری کا جواز نہیں بنتا، لیکن بغیر کسی مکمل جائزہ یا باضابطہ حکم کے انہیں ملک سے نکالا گیا، جو ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔
جمو ں و کشمیر ہائی کورٹ کا مرکز کو 63سالہ خاتون کو پاکستان سے واپس لانے کا حکم
