Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
کالممضامین

خدمت خلق کے اصول و مبادی | انسان کی خدمت انسان کا سب سے پہلا فرض ہے تجلیات ادراک

Towseef
Last updated: June 23, 2025 11:36 pm
Towseef
Share
13 Min Read
SHARE

ڈاکٹر عریف جامعی

لغت میں ’’دیکھ بھال‘‘ اور ’’مدد‘‘ کرنے کو خدمت کہتے ہیں۔ یہ دیکھ بھال یا مدد مادی بھی ہوسکتی ہے، نفسیاتی اور جذباتی بھی۔ یعنی ایسا کام جس میں کسی کی مادی یا جذباتی ضرورت کو پورا کیا جائے، خدمت کے زمرے میں آتا ہے۔ خدمت انجام دینے والا شخص ’’خادم‘‘ کہلاتا ہے اور جس کی خدمت کی جائے، اس کو’’مخدوم‘‘ کہیں گے۔ ایک روایت میں قوم کے سردار کو قوم کا خادم قرار دیا گیا ہے (سیدُالقوم خادمُھم)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہی شخص قوم کا سردار کہلانے کا مستحق ہے جو قوم کی بے لوث خدمت کرنے کے لئے تیار ہو۔ اب جہاں تک خلق کا تعلق ہے تو خلق اگرچہ مخلوق، پیدائش اور تخلیق کو کہتے ہیں، لیکن عرف عام میں خلق بنی نوع آدم اور نوع انسان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح وسیع تر تناظر میں اگرچہ خدمت خلق میں تمام مخلوقات کی دیکھ بھال شامل ہے، لیکن عام فہم انداز میں انسانوں کی خدمت کو ہی خدمت خلق کہا جاتا ہے۔

خدمت کے سلسلے میں یہ باریک نکتہ مستحضر رہنا چاہئے کہ فرد یا جماعت کی طرف سے انجام پانے والا ہر کام، اگرچہ وہ مفید ہی ہو، خدمت کے زمرے میں نہیں آسکتا۔ ایسے کسی کام کو اسی وقت دوسرے کے حق میں خدمت قرار دیا جاسکتا ہے، جب اس میں کوئی ذاتی غرض شامل نہ ہو۔ یعنی وہی کام خدمت خلق ہوسکتا ہے جو آخری درجے میں ’’مخدوم‘‘ کی خیرخواہی پر مبنی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدمت بنیادی طور پر ایک ایسی معاشرتی قدر ہے جس کا معرض وجود میں آنا اور قائم رہنا اس بات پر منحصر ہے کہ معاشرے کے افراد کتنے بے غرض (سیلف لیس) اور مخلص (سنسئیر) ہیں۔ خدمت خلق دراصل اسی بے غرضی اور اخلاص کا (مینفیسٹیشن) اظہار ہوتا ہے۔ یہ قدر کسی بھی صورت میں پیشۂ گداگری کو فروغ نہیں دیتی۔ اس کے برعکس یہ معاشرے سے کشکول برداری کی روایت کا خاتمہ کرکے معاشی اور انسانی وسائل کی تنظیم نو کرتی ہے، جس سے معاشرے میں مؤاخات اور مواسات کا ایک دلکش ماحول پیدا ہوتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی انسان دوسرے کی خدمت یا مدد کیوں کرے؟ اس کا سیدھا اور عام فہم جواب یہ ہے کہ انسان کا پیدا ہوکر ایک خاص مقام پر پہنچنا اور ایک خاص (باعزت) حیثیت حاصل کرنا معاشرے کی مختلف اکائیوں کا رہین منت ہوتا ہے۔ انسان معاشرے کی ان اکائیوں کے درمیان پیدا ہونے والے رشتوں کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کرسکتا۔ یہی اکائیاں اور رشتے اسے معاشرتی وجود یعنی ’’سوشل بیئنگ‘‘ بناتے ہیں۔ زندگی کے مختلف ادوار میں یہی رشتے انسان کی پرورش، دیکھ بھال یا خدمت کرتے ہیں! اگرچہ انسان کی حقیقی ’’دیکھ بھال‘‘ (ربوبیت) رب تعالی خود فرماتا ہے، کیونکہ وہ ’’رب العالمین‘‘ (الفاتحہ، ۱) ہے، لیکن اس پرورش، نشوونما اور دیکھ بھال، یعنی رب تعالی کی ’’ربوبیت کی اسکیم‘‘ میں انسان کے والدین کچھ طرح شریک ہوجاتے ہیں کہ انسان کو لفظ ’’رب‘‘ کے اشتقاق سے والدین کے لئے دعا کرنا سکھایا گیا: ’’اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے رب! ان پر ایسا ہی رحم فرما جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی؛ رب ارحمھما کما ربیٰنی صغیراً۔‘‘ (بنی اسرائیل، ۲۴)

یہاں اس بات کی وضاحت دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ رب کائنات کی دیکھ بھال (ربوبیت) اس کے منکرین تک کو حاصل ہے۔ اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب سیدنا ابراہیمؑ کو ’’لوگوں کا امام بنایا گیا‘‘ تو انہوں نے اپنی اولاد کے لئے بھی اس منصب کی تمنا کی۔ اس پر رب تعالی نے اپنی سنت کا اعلان کرکے ’’ظالموں‘‘ کو اس منصب سے الگ کردیا۔ (البقرہ، ۱۲۴) اس کے برعکس جب سیدنا ابراہیم ؑ نے ’’اہل ایمان کے لئے رزق کی دعا کی‘‘ تو آپ کو یہ خبر دی گئی کہ ’’رزق کی تقسیم کی بنیاد کفر یا ایمان نہیں!‘‘ (البقرۃ، ۱۲۶) اس طرح بندوں پر رب تعالی کا یہ احسان ہوتا ہے جو انہیں کسی استحقاق کے بغیر عطا کیا جاتا ہے۔ یعنی ربّ تعالیٰ کسی بھی صورت میں کسی بندے کو کوئی خاص انعام عطا کرنے کا پابند نہیں ہوتا۔ یہ محض اس کی شان ربوبیت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو نوازتا رہتا ہے۔ تاہم بندوں سے یہ تقاضا ضرور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ان بھائی بندوں کی خدمت کریں جنہیں وسائل اور رزق کی تقسیم میں کم حصہ ملتا ہے۔ ایسے بندگان خدا کے بارے میں نبی کریم ؐ کا ارشاد ہے: ’’بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کے لئے نافع و مفید ہو۔‘‘ (کنز العمال بحوالۂ سیوطی، جامع الاحادیث)

بندوں کا یہ آپسی تعاون اور جذبۂ خیر سگالی معاشرتی عدل (سوشل جسٹس) سے ایک اعلی تر قدر ہے، جس میں انسان رضاکارانہ طور پر، کسی معاوضے اور بدلے کی امید کیے بغیر، معاشرے کے ضرورت مند طبقے کی امداد کے لئے پیش پیش رہتا ہے۔ اس سے انسان نیکی کے اعلی ترین درجے پر فائز ہوتا ہے، جسے اصطلاحاً احسان کہا گیا ہے۔ خدمت کا یہ جذبہ اتنا بے لوث ہوتا ہے کہ والدین کے لئے مطلوب نیکی یا سلوک کو اسی (احسان) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں: ’’ اور والدین کے ساتھ احسان کرنا۔‘‘ (بنی اسرائیل، ۲۳) یہاں پر اس بات کی طرف اشارہ کرنا مفید رہے گا کہ بنی اسرائیل کے سیدنا موسیٰ ؑ کے زمانے کے ارب پتی، قارون سے کہا گیا ’’کہ جیسے اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے، تو بھی احسان کر۔‘‘ (و‌ احسن کما احسن اللہ الیک؛ القصص، ۷۷) احسان کے اس رویے کی فرد اور معاشرے کے لئے اتنی اہمیت ہے کہ ربّ تعالیٰ نے خود اس کی تعریف کی اور اس رویے کو ابدیت اور آفاقیت عطا فرمائی ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’ احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے؟‘‘ (الرحمٰن، ۶۰)

یہ بات بھی نہایت عجیب ہے کہ ہمارے معاشرے میں بسا اوقات ضرورت مندوں کے لئے روٹی، کپڑے اور مکان کی فراہمی کو خدمت خلق کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ ان بنیادی ضروریات کی فراہمی کے علاوہ زیادہ سے زیادہ شادی بیاہ اور وفات کے موقعوں پر ضرورت مندوں کی طرف دست تعاون بڑھایا جاتا ہے۔ معاشرے کے وہ افراد جو نفسیاتی اور جذباتی صدموں سے دوچار ہوتے ہیں، انہیں اکثر اوقات نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اسی طرح تعلیم کے معاملے میں مذہبی تعلیم کی تحصیل کے لئے بڑی فراخدلی کے ساتھ امداد فراہم کی جاتی ہے، لیکن مروّجہ اور تکنیکی تعلیم کو اس وجہ سے ’’غیر ضروری ‘‘قرار دیا جاتا ہے کہ (شاید) یہ تعلیم ’’ دارین‘‘ کے بجائے فقط ’’دار فانی‘‘ کے لئے فائدہ مند ہے! اس ضمن میں ہمیں اس بات کو مستحضر رکھنا ہوگا کہ اسلام میں علم کی ’’دو شاخی تقسیم‘‘ (بائفرکیشن) روا نہیں رکھی گئی ہے۔ ویسے بھی اسلام نے مؤمنین کو ’’دارین‘‘ کی صلاح اور فلاح کے لئے دعا کرنا سکھایا ہے: ’’ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما۔‘‘ (البقرہ، ۲۰۱)

اس کا مطلب یہ ہے کہ خادمین خلق یا کارکنان خیرات کو معاشرے کے حاجت مندوں کی ہر طرح کی جائز ضرورت کے لئے تگ و دو کرنا چاہئے۔ اس کام میں ضرورت مندوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی، تعلیم کی ترویج اور صحت عامہ کے مسائل کا حل ان کے بنیادی اہداف ہونے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں مسابقت پیدا کرنے کے لئے انہیں ہنر مندوں اور جسمانی طور پر مسائل کا شکار افراد کے لئے وظائف کا بھی اہتمام کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ خدمت کے یہ تمام کام انجام دیتے ہوئے انہیں خدمت کا یہ قرآنی تصور ذہن میں رہنا چاہئے کہ ’’ اور احسان کرکے زیادہ لینے کی خواہش نہ کر۔‘‘ (المدثر، ۶) اسی بات کو دوسرے پیرائے میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’ہم تو تمہیں صرف اللہ تعالی کی رضامندی کے لئے کھلاتے ہیں۔ نہ ہم تم سے بدلہ چاہتے ہیں (اور) نہ شکرگزاری۔‘‘ (الدھر، ۹) خادمین خلق کو اسی طرح خبردار کیا گیا ہے کہ ’’وہ ضرورت مند کی عزت نفس کا ہر صورت میں خیال رکھیں۔‘‘(نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو۔ البقرہ، ۲۶۳)

خدمت خلق کے نتیجے میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب مختلف قسم کے ضرورت مند خود کفیل بن جاتے ہیں۔ یعنی اس وقت ضرورت مند کی احتیاج ختم ہوجاتی ہے اور وہ معاشرے کے مرکزی دھارے (مین اسٹریم) میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس سطح پر پہنچ کر اسے معاشرے کے مسائل سے لاتعلق نہیں رہنا چاہئے۔ اس کے برعکس اسے بڑھ چڑھ کر سامنے آنا چاہئے اور خیرات یا خدمت خلق کی منظم ادارہ سازی (انسٹیچیوشنلائزیشن) کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے مسلمانوں کے رویے کی کچھ اس طرح تشکیل کی ہے کہ معاشرے کے ’’خوش حال لوگوں کے مال میں سائل اور محروم دونوں کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔‘‘ (الذٰریٰت، ۱۹) صاف ظاہر ہے کہ حق بڑے اعتماد کے ساتھ اور بلاجھجک حاصل کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں خدمت خلق کے ادارے سہ جہتی کام کرتے ہیں۔ اول، یہ معاشرے کے ضرورت مند طبقات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ دوم، یہ وسائل کی تنظیم کرتے ہیں۔ سوم، یہ ان وسائل کی کچھ اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ معاشرے کا مستقبل روشن بھی ہوجاتا ہے اور محفوظ بھی۔ اگر ایسا نہ ہو تو ضرورت مندوں کو ’’قیافے، چہرے پر مخصوص اثر‘‘ (البقرہ، ۲۷۳) سے پہچاننا نہایت مشکل ہوگا! خیراتی اداروں کی بروقت یاد دہانی کے بغیر انفرادی طور پر خدمت خلق کے کام میں لیت و لعل ہوگا، جس سے حاجت مندوں کی مشکلات کا کبھی ازالہ نہیں ہوگا۔ اس صورت حال کو نبی کریم ؐ کی اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے: ’’ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ ؐ! کس صدقہ کا ثواب زیادہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیرا اس حال میں صدقہ کرنا کہ تو تندرست ہو اور تیرے اندر مال کی چاہت اور خواہش ہو، افلاس سے ڈرتا ہو اور دولت مندی کی امید رکھتا ہو۔ اور ایسا نہ ہو کہ تو سوچتا اور ٹالتا رہے، یہاں تک کہ جان حلق میں پہنچ جائے (اور) تو کہنے لگے کہ اتنا فلاں کے لئے ہے اور اتنا فلاں کے لئے ہے، حالانکہ اب تو وہ فلاں کو ہی ملے گا۔‘‘ (متفق علیہ)
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم جموں و کشمیر میں اسلامک اسٹڈیز کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔: 9858471965
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
جموں ڈویژن کی ضلعی عدالتوں کے لیے نئے اوقات کار کا اعلان، 7 جولائی سے اطلاق
تازہ ترین
پولیس اہلکار امرناتھ یاترا ڈیوٹی کے دوران حادثاتی فائرنگ میں زخمی
تازہ ترین
چین پاکستان کو ہتھیاروں کی آزمائش کیلئے بطور پراکسی استعمال کر رہا ہے: لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ
برصغیر
کشتواڑ میں ملی ٹینٹوں کی تلاش کیلئے آپریشن تیسرے روز بھی جاری ، محاصرہ مزید سخت
تازہ ترین

Related

مضامین

محرم الحرام اور سانحۂ کربلا سبق آموز

July 3, 2025
مضامین

محرم ایک عظمت والامہینہ فضیلت

July 3, 2025
مضامین

کربلا جرأت و عزیمت کا ابدی مظہر پیغام

July 3, 2025
مضامین

سیدنا حسین ؓ کی مہاجرت اور شہادت تجلیات ادراک

July 3, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?