ملک منظور
دور ایک سرسبز و شاداب جنگل میں پرندوں کی ایک بستی آباد تھی۔ ہر سو پرندوں کی چہچہاہٹ گونجتی تھی۔ اونچے اونچے درختوں پر رنگ برنگے گھونسلے جھول رہے تھے۔ ان گھونسلوں میں مادہ پرندے اپنے انڈوں کو سینے میں مصروف تھیں۔
اسی جنگل کے ایک اونچے ٹیلے پر، ایک مضبوط درخت کی شاخ پر، شاہین کے جوڑے کا گھونسلہ تھا۔ ٹیلے کے قریب ہی ایک کرگس جوڑا بھی رہتا تھا۔ دونوں کے مزاج مختلف تھے، مگر برسوں سے ہمسائیگی میں امن و محبت سے زندگی گزار رہے تھے۔
چند ہی دنوں میں انڈوں سے چوزے نکلنے لگے۔ کرگسوں کے گھونسلے میں زور زور کی آوازیں گونجنے لگیں۔ ننھے کرگس ہر وقت بھوکے بھوکے چیختے رہتے تھے۔ جب بھی ان کے والدین کھانا لاتے، تیز اور طاقتور بچہ سب سے زیادہ غذا ہڑپ کر جاتا اور کمزور بچہ پیچھے رہ جاتا۔
کرگس دن میں کئی مرتبہ کھانے کی تلاش میں نکلتے اور واپس آ کر بچوں کو کھلاتے۔ دوسری طرف، شاہین جوڑا دن میں ایک یا دو مرتبہ ہی شکار لاتا، مگر انصاف کے ساتھ ایک ایک بچے کو کھلاتا۔ ننھے شاہین خاموشی سے قطار میں بیٹھ کر کھاتے، نہ کوئی چھین جھپٹ، نہ جھگڑا۔
ایک دن، ننھے شاہینوں میں سے ایک نے گہری سانس لی اور کہا: “کاش! ہمارے والدین بھی کرگسوں کی طرح زیادہ کھانا لاتے۔ لگتا ہے وہ سست اور لاپروہ ہیں۔”
باقی ننھوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ کرگسوں کے بچوں کی ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر دل ہی دل میں حسد کرنے لگے۔
تبھی اچانک شور اُٹھا۔ کرگسوں کے گھونسلے میں جھگڑا ہو رہا تھا۔ ایک طاقتور بچہ کمزور بھائی کو دھکا دے کر نیچے گرا چکا تھا۔ باقی دو بھی ایک دوسرے سے لڑ پڑے۔ آخرکار طاقتور کرگس نے دوسرے کو بھی نیچے دھکیل دیا اور اکیلا رہ گیا۔
یہ سب دیکھ کر ننھے شاہین سہم گئے۔
“اب اسے اپنے والدین سے ضرور ڈانٹ پڑے گی!” ایک ننھے شاہین نے کہا۔
مگر جب کرگس کے والدین لوٹے، تو نہ کچھ پوچھا، نہ کچھ کہا۔ وہ کھانا ڈال کر چپ چاپ واپس اُڑ گئے۔
ننھے شاہین اور بھی حیران ہوئے۔ جب شاہین کے والدین لوٹے، بچوں نے انہیں سارا واقعہ سنا دیا۔
ماں نے کہا،
“یہ خودغرض چوزہ ہے۔ اس نے اپنے فائدے کے لیے بھائیوں کو مار گرایا۔ مگر یاد رکھو، خودغرضی کبھی دیرپا فائیدہ نہیں دیتی۔”
باپ نے پیار سے سمجھایا:
“زندگی کا اصل حسن بانٹ کر جینے میں ہے۔ محبت، ایثار اور نظم ہی ہمیں مضبوط بناتے ہیں۔”
وقت گزرتا گیا۔ بچے بڑے ہونے لگے۔
ایک دن، کرگس کا بچہ، جو اب اکیلا بچا تھا، شاہین بچوں کو آواز دے کر بولا:
“میرے پاس کھانے کی کوئی کمی نہیں۔ آؤ، تم بھی کھا لو۔”
ایک ننھا شاہین لالچ میں آ گیا۔ وہ گھونسلے سے اڑ کر کرگس کے پاس گیا اور ایک نوالہ چکھا۔ مگر نوالے کے منہ میں جاتے ہی اس کے منہ سے بدبو کا بھبکا نکلا۔ اسے زور کی چھینک آئی اور فوراً قے ہونے لگی۔ بخار میں تپتا، وہ بمشکل واپس گھونسلے میں آیا۔
ماں نے پریشانی سے پوچھا:
“کیا ہوا میرے بچے کو؟”
ایک شاہین بولا:
“یہ کرگس کے کھانے کا لالچ کر بیٹھا۔ نوالہ کھایا اور بیمار ہو گیا۔”
ماں نے پیار سے سمجھایا:
“یہی فرق ہے حلال اور حرام رزق میں۔ ہم زندہ شکار کھاتے ہیں، وہ مردار۔ ان کی غذا زیادہ ضرور ہے، مگر پاکیزہ نہیں۔”
بچوں نے سبق سیکھا اور وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی لالچ میں نہیں آئیں گے۔
پھر ایک دن، جنگل میں زور کی بارش ہوئی۔ شکار کم ہو گیا۔ ننھا کرگس بھوک سے نڈھال ہو کر زور زور سے چلانے لگا، جبکہ شاہین چپ چاپ صبر سے بیٹھے رہے۔
جب موسم کھلا، والدین کھانے کی تلاش میں نکل گئے۔ ادھر، ایک چیل فضا میں منڈلاتی آئی۔ اس نے اکیلے بیٹھے بچوں کو دیکھا تو جھپٹ پڑی۔ ننھے شاہینوں نے مل کر مقابلہ کیا اور چیل کو بھگا دیا۔
لیکن کرگس اکیلا تھا۔ وہ چیخا، لڑا، بچنے کی کوشش کی، مگر کوئی مدد کو نہ آیا۔ بالآخر شاہین کے جوڑے نے اس کی مدد کی لیکن وہ بری طرح سے زخمی ہوگیا تھا۔ ننھے کرگس کے والدین نے جب کھانا لایا تو دیکھا وہ بیہوش پڑا تھا۔ انھونے اس کو اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ اٹھا۔ کرگس کا جوڑا واپس چلا گیا۔
انھونے خدا کا شکر ادا کیا اور مزے سے جینے لگے۔
���
قصبہ کھل کولگام ،کشمیر