Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
ادب نامافسانے

روح کی التجا کہانی

Mir Ajaz
Last updated: June 21, 2025 11:16 pm
Mir Ajaz
Share
9 Min Read
SHARE

عابد حسین راتھر

عالمِ ارواح کی صبح نہایت خاموش، پاک وشفاف اور روح پرور تھی۔ روشنی کی نہ کوئی سمت تھی، نہ ہی کوئی منبع۔ جیسے سب کچھ ایک نوری دریائے سکون میں بہہ رہا ہو۔ یہاں وقت گھڑیوں سے نہیں، ذکرِ الٰہی کی روانی سے ناپا جاتا تھا۔ تمام روحیں حسبِ معمول اپنی نشستوں پر موجود تھیں، کچھ مراقبے میں تھیں، کچھ تسبیح کے دانے گن رہی ذکر وازکار میں مشغول تھیں اور کچھ اپنے کئے ہوئے وعدے کے تحت انسان بننے کی منتظر تھیں۔
اسی عالمِ ارواح میں ایک نیک اور پاک روح، جسے محبت سے “نورینہ” کہا جاتا تھا، عالمِ ارواح کی نشست گاہ پر بیٹھی، اپنے نوری آنچل کو انگلیوں سے لپیٹتے ہوئے، ہاتھ میں تسبیح لئے کسی سوچ میں گم تھی۔ قریب ہی ایک بزرگ روح، جو اپنے وقت میں حضرتِ رابعہ بصری کی صحبت سے فیضیاب ہو چکی تھی، مسکرا کر بولی:
“کیا بات ہے بچی؟ آج اتنی خاموش کیوں ہو؟”
نورینہ نے آہستہ سر اٹھایا، ایک سانس لی جو نور سے بھری ہوئی تھی اور دھیرے سے بولی:
“میری باری آ گئی ہے، اماں جی۔ مجھے نیچے جانا ہے… انسان بننے۔”
اماں جی نے شفقت سے اس کا سر تھپتھپایا، “یہ تو خوشی کی بات ہے بیٹی۔ رب نے تمھیں چُنا ہے۔”
“جی، لیکن… میں ڈری ہوئی ہوں۔”
اسی لمحے اُفقِ نور پر ایک آواز گونجی، جو نہ مردانہ تھی، نہ زنانہ، بلکہ ایسی جیسے دل خود بول اٹھے:
“نورینہ بنتِ روحِ پاک، بارگاہِ ربِ ذوالجلال میں حاضر ہو۔”
نورینہ نے اماں جی کو الوداعی نظر سے دیکھا، اور ایک لمحے میں نوری رفتار سے بارگاہِ الٰہی کی طرف روانہ ہو گئی۔
بارگاہِ رب میں فرشتے قطار اندر قطار کھڑے تھے، اور درمیان میں وہ عظیم تخت، جس کی شعاعیں زمان و مکان کی حدوں سے ماورا تھیں۔ نورینہ نے سجدہ کیا اور پھر نگاہ نیچی کئے کھڑی ہو گئی۔
رب نے نرمی سے سوال کیا:
“کیا تُو تیار ہے اُس وعدے کو نبھانے کے لیے جو تُو نے عالمِ الست میں کیا تھا؟ کیا تو انسان بن کر دنیا میں میری وحدانیت، میری الوہیت اور میری ربوبیت کی گواہی دینے کے لیے تیار ہے؟ ”
نورینہ نے آنکھیں پھیلا دیں، جیسے کوئی بچہ اسکول کے پہلے دن کو ملتوی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور تھوڑا جھجکتے ہوئے کہا،
“یا رب، وعدہ تو دل و جان سے کیا تھا… پر اب جب نیچے جھانک کر دیکھتی ہوں، تو خوف سا لگتا ہے۔”
رب نے فرمایا،
“بیان کر، کیا چیز ڈراتی ہے تجھے؟”
نورینہ نے جیسے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے اپنی تسبیح فرش پر رکھ کر آنکھیں بند کیں، اور بولی:
“میں نے دیکھا ہے کہ انسانوں کا سچ کے ساتھ وہی سلوک ہے جو بچے کڑوی دوا کے ساتھ کرتے ہیں – صرف ماں کی مار پر پیتے ہیں! انسانوں نے تیرے نام پر فرقے بنائے ہیں، تیری وحدانیت کی جگہ اپنی برادری کو رکھ لیا ہے۔ ہر دوسرا شخص خود کو حق پر اور باقی کوگمراہ سمجھتا ہے۔ جھوٹ بولنا فخر بن گیا ہے، ایمان داری ایک مذاق بن چکی ہے۔ حلال روزی کمانے والے کو کم عقل اور چالاک چور کو کامیاب کہا جاتا ہے۔ اور یا رب! وہاں کا ہر شخص مادیت کے نشے میں بدمست ہے۔ محبت کا مطلب مفاد، عبادت کا مطلب دکھاوا اور علم کا مطلب فہم نہیں بلکہ صرف نوکری ہے۔ وہاں تو لوگ دل کے سکون کے لیے جِم جاتے ہیں، مراقبہ کرتے ہیں، یوگا کرتے ہیں… لیکن اصل سکون کی جگہ یعنی رب کی یاد سے کوسوں دور ہیں۔ لوگ خرچ کرتے ہیں تاکہ دِکھا سکیں، دیتے نہیں تاکہ بچا سکیں۔
نورینہ کی آواز رُندھ گئی۔ اس نے آگے بڑھ کر عرض کی:
“جھوٹ بولنے والے سیاستدان جلسوں میں صداقت کے نعرے لگاتے ہیں، اور عوام تالیاں بجاتے ہیں۔ پہلے لوگ کسی سے دل لگاتے تھے تو نکاح ہوتا تھا۔ اب دل لگاتے ہیں تو بس دل لگی کے لئے۔ عشق، وفا اور وفاداری اب کتابوں میں ہیں اور کتابیں اب الماریوں میں دبی پڑی ہیں۔ یا رب، مجھے معاف کر دیجیے… میں نیچے نہیں جانا چاہتی۔ میں نہیں چاہتی کہ وعدہ کر کے بھی میں ناکام ہو جاؤں۔”
رب کی بارگاہ میں خاموشی چھا گئی۔ پھر ایک فرشتہ آگے بڑھا اور بولا:
“اجازت ہو تو میں کچھ مناظر دکھاؤں؟”
رب نے فرمایا،
“پیش کرو، تاکہ یہ الجھی ہوئی روح خود فیصلہ کرے۔”
ایک نورانی پردے پر منظر ابھرا — ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں ایک ماں فجر کے وقت اپنے بچے کو اٹھا رہی ہے:
“اُٹھ بیٹا، نماز کا وقت ہو گیا۔ اللّٰہ دیکھ رہا ہے۔”
پھر منظر بدلا: ایک نوجوان، بازار میں گرے ہوئے بوڑھے کو سہارا دے کر اسپتال لے جا رہا ہے۔
“ابا جی، آپ میرے والد کے مانند ہیں۔”
پھر ایک اسکول میں استاد طالب علم کو سمجھا رہا ہے:
“بیٹا، نمبرات زندگی کا معیار نہیں، نیت اور عمل اہم ہے۔”
پھر ایک خاتون تنہائی میں سجدے میں رو رہی ہے، اور کہہ رہی ہے:
“یا اللہ! میں تیری بندی ہوں۔ مجھے بخش دے۔”
پردہ دھندلا ہوا اور نورینہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
” یا رب! یہ لوگ… کیا آپ کی دنیا میں آج بھی ایسے متقی اور نیک دل انسان موجود ہیں!”
رب نے فرمایا:
“دنیا کو اگر سب نافرمان ملیں گے، تو ہدایت کون دے گا؟ اگر سب لوگ جھوٹ بولیں گے، تو سچائی کی مثال کون بنے گا؟ ہر زمانے میں کچھ لوگ حق پر ہوتے ہیں، اور اُنہی کے لیے دنیا قائم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ تجھے بھیجا جا رہا ہے، تاکہ تُو بھی ان چراغوں میں ایک چراغ بنے۔ کیا تُو اُن میں شامل نہیں ہونا چاہتی؟”
نورینہ نے آہستہ سر جھکا دیا۔
“مگر یا رب، اگر میں بھی بھٹک گئی؟ اگر دنیا کی چمک آنکھوں کو دھوکہ دے گئی؟”
رب کی بارگاہ سے آواز آئی:
“تو ہم تمھیں بار بار یاد دلائیں گے۔ دل کی دھڑکنوں سے، ضمیر کی آواز سے، ماں کی دعا سے، کسی بے گناہ کی نظر سے، کسی بزرگ کی بات سے۔ تم بھٹکو گی تو میرے انعامات میں سب سے قیمتی انعام ‘ہدایت کو پکارنا، ہم صحیح راہ دکھائیں گے… بس تمہارا ارادہ سچا ہونا چاہیے۔”
نورینہ نے تسبیح دوبارہ ہاتھ میں لے کر سکون سے سر اٹھایا۔
“تو بھیج دیجیے مجھے، لیکن۔۔۔”
“لیکن کیا؟” رب نے محبت سے پوچھا۔
“لیکن میرے والدین کو کہہ دیجیے کہ جب میں دنیا میں انسان کی شکل میں پیدا ہو جاؤں، تو میرے کان میں اذان دے تاکہ مجھے یاد آ جائے کہ میں کون ہوں، اور مجھے کہاں واپس آنا ہے۔”
رب کی آواز آئی:
“جاؤ، میری ہدایت کی روشنی لے کر دنیا کو منور کرو۔ اور یاد رکھنا… تمہاری دنیاوی کارکردگی پر ہی تمہاری اگلی دنیا کا انعام منحصر ہے!”
رب کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہوا کہ روحِ نورینہ کو مقامِ امان سے مقامِ فانی کی طرف روانہ کیا جائے۔ یہ وہ روح ہے جو وعدے کے ساتھ جا رہی ہے اور ہم اس کے وعدے کی حفاظت تب تک کریں گے جب تک یہ اپنے ضمیر کی آواز سن کر اپنے وعدے کو یاد کرے گی اور میرے سب سے قیمتی انعام ‘ہدایت کو پکارتی رہے گی۔

���
موبائل نمبر ؛ 7006569430

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
پی ڈی پی زونل صدر ترال دل کا دورہ پڑنے سے فوت
تازہ ترین
سرینگر میں 37.4ڈگری سیلشس کے ساتھ 72سالہ گرمی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا
برصغیر
قانون اور آئین کی تشریح حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے، : چیف جسٹس آف انڈیا
برصغیر
پُلوں-سرنگوں والے قومی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس میں 50 فیصد تک کی کمی، ٹول فیس حساب کرنے کا نیا فارمولہ نافذ
برصغیر

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامغرلیات

غزلیات

June 28, 2025
ادب نامنظم

نظمیں

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?