بلال فرقانی
سرینگر// کشمیر اکنامک الائنس کے زیر اہتمام ماحولیاتی تحفظ سے متعلق ایک روزہ کنونشن کا انعقاد سرینگر میں عمل میں آیا، جس دوران مقررین نے جموں و کشمیر میں ماحولیات، معیشت اور تجارت کے باہمی تعلق کو اجاگر کرتے ہوئے ماحولیاتی تحفظ کو ترقی کے ہر منصوبے کا لازمی حصہ بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔کنونشن کی صدارت کرتے ہوئے الائنس کے چیئرمین محمد یوسف چاپری نے کہا کہ جموں و کشمیر ایک ماحولیاتی طور پر حساس خطہ ہے، جہاں ترقیاتی منصوبوں کو ماحولیاتی تناظر میں جانچنا ناگزیر ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جھیل ڈل کے مکینوں کا اس جھیل کے تحفظ میں کلیدی کردار رہا ہے، اور ان کے تعاون کے بغیر تحفظ کی کوئی بھی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔چاپری نے یاتریوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام نے ہمیشہ سیاحوں اور یاتریوں کو مہمان نوازی سے نوازا ہے، اور ماحولیاتی استحکام سے ہی سیاحتی شعبہ پنپ سکتا ہے۔ سابق قانون ساز محمد رشید قریشی نے جموں سے کرناہ تک ماحولیات میں بگاڑ کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ بڑھتی ہوئی گرمی کی لہریں ماحولیاتی انحطاط کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ قریشی نے زور دیا کہ ماحولیات کو بچانے کیلئے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اجتماعی و عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ماہر قانون ایڈوکیٹ عثمان سلاریہ نے کہ اگرچہ جھیل کی صفائی اور تحفظ پر کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، لیکن زمینی سطح پر خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے، جو ایک بڑی تشویش کا سبب ہے۔سابق قانون ساز اشوک شرما، جو قانون سازیہ کی ماحولیاتی کمیٹی کے رکن رہ چکے ہیں، نے ماحولیات کے حوالے سے بننے والے منصوبوں پر شفاف نگرانی کو ضروری قرار دیا۔ الائنس کے شریک چیئرمین فاروق احمد ڈار نے کہا کہ جنگلات، آبی ذخائر اور دیگر قدرتی وسائل کا تحفظ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ ہر شہری کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ مقررین نے مطالبہ کیا کہ حکومت ترقیاتی پالیسیوں میں ماحولیاتی عوامل کو بنیادی جزو بنائے اور عوامی سطح پر آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ عام شہری بھی ماحولیاتی بیداری میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔کنونشن میں اس بات پر اتفاق رائے ظاہر کیا گیا کہ جموں و کشمیر کی پائیدار ترقی کیلئے لازم ہے کہ ہر ترقیاتی منصوبے میں ماحولیاتی توازن کو ترجیح دی جائے، اور جھیل ڈل جیسے قدرتی ذخائر کے تحفظ کو عملی اقدامات سے یقینی بنایا جائے۔