سہیل بشیر کار
قومی یا بین الاقوامی مسائل پر قلم کو جنبش دینا تو آسان ہے البتہ اپنے علاقے کے کسی پہلو کو اجاگر کرنا ہو یہ بے حد مشکل ہے کیونکہ مواد کی عدم دستیابی ہے، موضوع کا احاطہ کرنے کے لیے انتہائی محنت کرنی پڑتی ہے، لیکن زندہ اور باغیرت قوم ہمیشہ اپنے اسلاف کے رول کو یاد رکھتی ہیں اور مصلحین کے کاموں کو اُجاگر کرتے ہیں۔خاکی فاروق صاحب کی زیر تبصرہ کتاب ’’فضلاء جموں و کشمیر کی تصنیفی خدمات ‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اس کتاب کو منصہ شہود پر لانے کے لئے مصنف کو کافی عرق ریزی کرنی پڑی ہوگی ،مصنف نے آنے والی نسلوں کے لیے اہم کام سرانجام دیا ہے۔یہ کام اس لیے زیادہ مشکل تھا کیونکہ یہاں نامساعد حالات تھے۔موسس و مدیر’’الحیات ‘‘پروفیسر ڈاکٹر جوہر قدوسی لکھتے ہیں:’’گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیر میں نامساعد حالات کے باوجود مشکل ترین صورتحال میں تحقیقی کام کرنا اور کتاب کے لیے تنکا تنکا مواد جمع کرنا دل گردے کا کام ہے۔ فضلائے کشمیر کے تحقیقی تنقیدی تخلیقی تصنیفی اور تالیفی کارناموں سے متعلق تمام تفاصیل جمع کرنا اور ان کو حسن ترتیب سے پیش کرنا خاکی صاحب ہی کا کام ہے۔‘‘(صفحہ 14)
خاکی صاحب کی کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے نہایت ہی اختصار اور جامع طور پر علمی کاموں کا تعارف پیش کیا ہے۔کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر قاضی عبدالرشید ندوی لکھتے ہیں: ’’خاکی صاحب نے ان کتابوں کے ذریعے سے ہماری ریاست کے علماء و فضلاء وادبا، مصنفین و مؤلفین محققین اور اسکالرس اور ان کی کتابوں اور علمی کاوشوں کے بارے میں اتنی معلومات جمع کر دی ہیں کہ اگر ان تحریروں کو تھوڑا سا پھیلایا جائے اور ہر مصنف اور اس کی تصنیفات اور علمی و تحقیقی خدمات کے تعلق سے مختصر ہی سہی چنداں کچھ تفصیلات تحریر کی جائیں تو شاید یہ پچاس ساٹھ جلدوں میں ایک موسوعہ یا دائرۃ المعارف تیار ہو جائے ۔ انہوں نے دریا کو نہیں بلکہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا کامیابی کے ساتھ جو دشوار گزار کام انجام دیا ہے اور دے رہے ہیں یہ انہیں کا حصہ ہے۔‘‘(صفحہ 16) یہ کتاب آنے والے ریسرچ اسکالرس کے لیے ایک اہم ضرورت ہوگی ماہر اقبالیات و داعی فہیم محمد رمضان لکھتے ہیں: ’’میرا ذاتی تاثر ہے کہ یہ تحقیقی دستاویز اسلامیات اور کشمیریات کے طلبا و طالبات کو ریسرچ کے میدان میں بہترین ممد و معاون کی حیثیت سے کام آئے گی ۔‘‘(صفحہ 23)
اس کتاب کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس کتاب میں مسلمانوں کے جملہ طبقات و فضلات کے علماء و فضلاء کی تصانیفات کا تعارف دیا گیا ہے، مشہور دانشور ڈاکٹر شکیل شفائی لکھتے ہیں:’’میری دانست میں یہ پہلی تصنیف ہے جو اتنی باریک بینی اور دقت نظر سے قدیم اور معاصر علماء و فضلاء کے علمی تراث کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ کتاب کی یہ خصوصیت بھی قابلِ ستائش ہے کہ اس میں مسلمانوں کے جملہ طبقات کے علماء و فضلاء کی تصنیفات و تالیفات کا تعارف دیا گیا ہے، اس سلسلے میں مصنف نے کسی قسم کے تعصب یا ذاتی میلان کو راہ نہیں دی ہے۔ کشمیر کے علاوہ جموں خطے سے وابستہ علماء وفضلاء کی علمی وادبی خدمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔‘‘(صفحہ 28)
400 صفحات کی زیر تبصرہ کتاب کو مصنف نے تیرہ ابواب میں تقسیم کیا ہے. پہلے باب’’ قرآنی خدمات‘‘ میں ان کتابوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو کشمیر کے لوگوں نے قرآنیات کے موضوع پر لکھی ہیں. اس باب میں قرآن مجید کے مختلف تراجم و تفاسیر کو بیان کیا گیا ہے؛ جو جموں و کشمیر کے لوگوں نے کیے ہیں۔اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کے فضلا نے نہ صرف تراجم اور تفاسیر لکھی ساتھ ہی علوم القرآن پر نہایت ہی اہم کتابیں بھی مرتب کی ہیں، اس باب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر کے فضلا نے عربی اور فارسی میں بھی قرآن کریم کی تفسیر لکھی۔
دوسرے باب ’’خدمات حدیث‘‘ میں مصنف نے ان کتابوں کا ذکر کیا ہے جو حدیٹ کے موضوع پر لکھی گئی ہے اس باب سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کے فضلا نے مختلف زبانوں میں حدیٹ کے تراجم اور شروح لکھی ہیں۔اس باب سے معلوم پڑتا ہے کہ کشمیر کے فضلا نے اس جانب ابتدا سے توجہ دی ،اس کام کا آغاز کشمیر میں حضرت میر سید علی ہمدانی نے کیا۔کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر میں اب بھی حدیث کے موضوع پر اچھا خاصا کام ہوا ہے۔
تیسرے باب ’’فقہی خدمات‘‘ میں مصنف نے ان کتابوں کا ذکر کیا ہے جو فقہ اور اصول فقہ کے موضوع پر لکھی گئی ہیں. خاکی صاحب لکھتے ہیں کہ فقہ کے موضوع پر ہی یہاں کے علماء کرام نے سب سے زیادہ لکھا ہے۔فقہ کے موضوع پر جہاں سنی علما نے کارنامے انجام دیے وہیں شیعہ علماء نے بھی اچھا خاصا کام کیا۔اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے احکام و مسائل پر بھی یہاں کے فضلا نے اچھی حاصی کتابیں لکھی ہیں،اسی طرح زکوٰۃ ، روزہ، اور حج اور عمرہ پر بھی بہت سے رسائل موجود ہیں ، اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ عیدین و قربانی ،نکاح و طلاق اور حقوق الزوجین، بچہ اور میت کے احکام و مسائل پر بھی کشمیر کے فضلا نے اچھا خاصا مواد جمع کیا ہے۔
کتاب کے چوتھے باب ’’سلوک و تصوف‘‘ میں مصنف نے ان کتب کا تذکرہ کیا ہے جو تصوف کی اہمیت و ضرورت پر لکھے گیے ہیں، کشمیری فضلا کو تصوف سے خصوصی دلچسپی رہی ہے۔اس باب میں مشہور محقق ڈاکٹر غلام قادر لون کی کتاب مطالعہ تصوف (قرآن و سنت کی روشنی میں) کا ذکر بھی ملتا ہے جو کہ بیک وقت ہندوستان اور پاکستان سے چھپی ہے۔کتاب کے پانچویں باب ’’اسلام کی حقانیت، رد باطل اور عقائد‘‘ میں مصنف نے ان کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جو دین اسلام کی حقانیت و صداقت اور باطل مذاہب و نظریات کے رد میں لکھی گئی ہیں۔
کتاب کے چھٹے باب ’’سیرت انبیاء علیہم السلام اور تذکرہ صحابہ‘‘ میں ان کتابوں کا تذکرہ ملتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت اور صحابہ کرام کی حیات و خدمات پر لکھے گیے ہیں، اس باب میں پہلے ان کتابوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو سیرت النبی پر لکھے گیے اس کے بعد ان کتابوں کا تذکرہ الگ سے کیا گیا جو سیرت انبیاء اور تذکرہ صحابہ پر لکھے گیے، اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیری فضلا نے سیرت کی اہم کتابوں کا کشمیری زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے۔
کتاب کے ساتویں باب ’’تاریخ نویسی‘‘ میں مصنف نے ان کتابوں کا ذکر کیا ہے جو جموں و کشمیر کے فضلا نے کشمیر کے ساتھ دوسرے علاقوں اور ممالک کی سیاسی، سماجی ،مذہبی، تہذیبی ،ثقافتی اور جغرافیائی تاریخ پر لکھے ہیں اس کام کا آغاز بڈشاہ کے زمانے سے ہی شروع ہوا جو کہ اب بھی جاری ہے۔
کتاب کے آٹھویں باب ’’تذکرہ نگاری‘‘ میں مصنف نے ان کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جو اولیاء کرام، علماء اور فضلا اور دوسری شخصیات کی حیات و خدمات کے سلسلے میں لکھے گئے ہیں،اس کا آغاز بھی حضرت امیر کبیر نے کیا ہے اور دور حاضر میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
کتاب کے نویں باب ’’ذکر و دعا ،عربی زبان و ادب اور دینی درسیات‘‘ میں ان کتابوں کا تذکرہ کیا گیا جو کہ ذکر، درود، دعا پر لکھے گیے ہیں۔اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان و ادب اور دینی درسیات پر بھی اچھا خاصا کام کشمیر میں ہوا ہے۔
[
دسویں باب ’’تائید و تنقید‘‘ میں مصنف نے ان کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جو کہ یہاں کے علما نے اپنے مسلک کی تائید و حمایت اور دوسروں کی تنقید میں لکھے ہے۔
گیارہویں باب ’’شعری اور ادبی تصانیف‘‘ میں مصنف نے یہاں کے ان شعراء و ادبا اور مصنفین کی ان شعری اور ادبی کتابوں کا ذکر کیا ہے جو اسلامی علوم و فنون اور دینی تعلیمات کی اشاعت اور توضیع و تشریح کے سلسلے میں لکھی گئیں۔مصنف نے دکھایا ہے کہ اسلام آنے کے بعد یہاں ہر زمانے میں فارسی کشمیری ،اردو، عربی گوجری، پہاڑی زبانوں کے شعراء و ادبا پیدا ہوئے اور انہوں نے کئی کتابیں بھی رقم کیں۔
بارہویں باب ’’شیخیات اور اقبالیات‘‘ میں مصنف نے بتایا ہے کہ حضرت شیخ نور الدین نورانی اور علامہ اقبال کی حیات و خدمات پر کون کون سی کتابیں لکھی گئیں۔اس سلسلے میں اقبال انسٹیٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی نے اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔تیرہویں اور آخری باب ’’متفرقات ‘‘میں مصنف نے ان کتابوں کا ذکر کیا ہے جو کہ پہلے بارہ ابواب میں شامل نہ ہو سکے،اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے مصنفین کے اندر تنوع پایا جاتا ہے۔
ہر باب کے آخر میں حواشی بھی دیے گیے ہیں،جن میں مختصر مگر جامع انداز میں کچھ صاحب علموں کا تعارف بھی کرایا گیا ہے، کتاب میں اگر انڈکس بھی ہوتا تو یہ اہم ضرورت پوری کرے گی ،مجموعی طور پر یہ کتاب کشمیر میں تصنیفی خدمات کے حوالے سے اہم اضافہ ہے۔کتاب کی قیمت 500 روپے بھی مناسب ہے۔یہ کتاب مکتبہ اسلامی نوگام سے ان کے فون نمبر 9682164457 سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
رابطہ ۔ 9906653927